پی ڈی ایم کے جلسے، کورونا اور تھوکا چاٹنا

447

اپوزیشن کی سنگت، پی ڈی ایم، لشٹم پشٹم چل رہی تھی، جلسے بھی ہورہے تھے، کور کمیٹی کے اجلاس بھی ہورہے تھے، حکومت یا ہیئت مقتدرہ سے مطالبات بھی ہورہے تھے اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم نے جلسوں کا بھاری شیڈول بھی جاری کردیا تھا جن میں لاہور اور پشاور کے جلسے بڑی اہمیت کے حامل تھے لیکن فلم کے ویلن کی طرح کورونا درمیان میں آکودا اور ڈانگ لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ جلسے نہیں ہوسکتے۔ اس طرح حکومت کی اُمید برآئی تھی۔ وہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی اور اس کے تمام وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کو اپنے تمام سرکاری دھندے سمیٹ کر اپوزیشن کے جلسوں کے خلاف محاذ کھولنا پڑا تھا اور تو اور فردوس عاشق اعوان کی اضافی امداد بھی حاصل کرنا پڑی تھی لیکن سچ پوچھیے تو کورونا کا وار زیادہ کاری رہا، حکومت بھی اَڑ گئی کہ کورونا کی لہر شدت سے پھیل رہی ہے اس لیے ایس او پیز کے بغیر جلسوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ظاہر ہے کہ جلسوں میں ایس او پیز کی پابندی کون کرتا ہے؟ نہ لوگ ماسک پہنتے ہیں اور نہ ہی دو افراد کے درمیان سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہی ممکن ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت بھی یہ ساری باتیں تسلیم کرتی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت کے خلاف عوامی بیداری کی لہر آئی ہوئی ہے جسے کیش نہ کرانا حماقت ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن نکتہ طراز سیاستدان ہیں، انہوں نے کورونا سے یہ ’’نکتہ‘‘ پیدا کیا ہے کہ کووڈ 19 سے زیادہ خطرناک کووڈ 18 ہے اگر اس کا صفایا ہوگیا تو کووڈ 19 اپنی موت آپ مرجائے گا۔ کووڈ 18 سے ان کی مراد عمران خان ہیں جو بری طرح اپوزیشن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور بار بار اعلان کررہے ہیں کہ خواہ کچھ ہوجائے وہ این آر او نہیں دیں گے۔ اِدھر مسلم لیگ (ن) نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان این آر او کی اُمید لگائے ہوئے ہیں لیکن انہیں این آر او کسی صورت نہیں ملے گا۔ این آر او کون کسے دیتا ہے؟۔ یہ معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، اور شاید ہماری سیاست میں ساری گہما گہمی ہی این آر او کی وجہ سے ہے۔
پی ڈی ایم نے کورونا کی آڑ میں جلسوں کی اجازت لینا غیر ضروری سمجھا ہے۔ پشاور کا جلسہ بھی کسی اجازت کے بغیر ہوا ہے، البتہ حکومت نے ’’مرتی کیا نہ کرتی‘‘ کے مصداق، پشاور جلسے کی سیکورٹی کے انتظامات ازخود سنبھال لیے ہیں تا کہ کوئی ناگوار واقعہ ہو تو اس کا ملبہ حکومت پر نہ ڈالا جاسکے۔ لاہور (ن) لیگیوں کا گڑھ ہے، اس لیے رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ہمیں لاہور میں جلسہ کرنے کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ اگر ایک جگہ جلسے کو روکا گیا تو لاہور میں کئی مقامات پر جلسے ہوں گے اور انتظامیہ کو ’’وکھت‘‘ پڑ جائے گا۔ بہرکیف پشاور کے جلسے نے ایک روایت قائم کردی ہے اب اسی روایت پر عمل ہوگا۔ جگہ جگہ بغیر اجازت کے جلسے ہوں گے اور حکومت کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچتی رہے گی۔ ایک وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے جلسوں کی وجہ سے کورونا پھیلا تو پی ڈی ایم کی قیادت کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے گی، لیکن یار لوگ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ جلسوں کی وجہ سے کورونا پھیل رہا ہے یا کورونا کی وجہ سے جلسے پھیل رہے ہیں۔ البتہ کورونا اور اپوزیشن کے جلسوں کا آپس میں گہرا ربط ضرور ہے۔
پی ڈی ایم میں طویل گہما گہمی کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ ایسا ضرور آیا تھا جس میں سب نے چپ سادھ لی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نااہل سابق وزیراعظم کی جانشین مریم صفدر نے ایک انٹرویو میں مقتدرہ کو باقاعدہ مذاکرات اور مفاہمت کی پیش کش کی تھی جس پر ان کے ابا جان کو بھی باقاعدہ چپ کا روزہ رکھنا پڑا تھا اور یہ افواہ اُڑ گئی تھی کہ اندر خانہ معاملات طے پارہے ہیں اور یہ کہ دسمبر کا مہینہ عمران خان کے لیے بہت سخت آنے والا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر صاف کہہ دیا تھا کہ دسمبر میں عمران خان کی حکومت رخصت ہوجائے گی، لیکن قدرت کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں وہ ذرا سی بات سے پانسا پلٹ دیتی ہے۔ ابھی مریم صفدر کی باتوں کی گونج فضا میں موجود تھی کہ جمعیت علماء اسلام کے مردِ ظریف حافظ حسین احمد کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے وہ تاریخی جملہ کہا جس سے بازی اُلٹ گئی اور مکالمے اور مفاہمت کا سارا سحر آن واحد میں ٹوٹ گیا۔ وہ تاریخی جملہ یہ تھا کہ ’’مریم نے میاں نواز شریف کا تھوکا ہوا چاٹ لیا ہے‘‘۔ سیاست میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں، لوگ اکثر اپنا تھوکا چاٹ لیتے ہیں۔ عمران خان ہی کو لیجیے، وہ جب سے برسراقتدار آئے ہیں اپنا تھوکا مسلسل چاٹ رہے ہیں اور اسے انہوں نے یوٹرن کا پُرفریب نام دے رکھا ہے۔ مریم صاحب کے ساتھ برا یہ ہوا کہ انہیں اپنا تھوکا نہیں بلکہ اپنے باپ کا تھوکا چاٹنا پڑ گیا جس سے ہر طرف تھو تھو ہونے لگی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن تو کسی صورت بھی مفاہمت اور مکالمے کے قائل نہیں۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، حافظ حسین کو ان کے منصب سے ہٹا کر پی ڈی ایم کی کور کمیٹی کے ذریعے مکالمے اور مفاہمت کا ٹینٹوا دبا دیا۔ سیاست کوئی حضرت مولانا سے سیکھے!