امریکا کے انتخابات اور دنیا کا امن

433

امریکی محکمہ دفاع ’’پینٹا گون‘‘ کے نئے سربراہ کرسٹوفر ملر نے ہفتے کے دن اشارہ دیا ہے کہ افغانستان اور عراق سے امریکی فوجیوں کی واپسی میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ مسلح افواج سے اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ: ’’ہم نے چیلنجز کا مقابلہ کیا، امریکی مسلح افواج کے گھر واپس آنے کا وقت آ چکا ہے‘‘۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے نئے سربراہ کرسٹوفر ملر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو 2001ء میں امریکا کے افغانستان پر حملے کے وقت ’’قندھار‘‘ کے محاذ پر فاتح کے طور پر سامنے آئے تھے۔ وزیر ِ دفاع ’’مارک ایسپر‘‘ کی برطرفی کی بنیادی وجہ صدر ٹرمپ کی افغانستان سے افواج کی واپسی کے خلاف بیان بازی اور نومنتخب صدر جو بائیڈن کی در پردہ حمایت ہے۔ جو بائیڈن نے انتخابات سے قبل ہی افغانستان پالیسی کو منشور میں شامل کرتے ہوئے کہا تھا جنوبی ایشیا میں امریکا کو طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے افغانستان میں افواج کی طویل عرصے تک موجودگی ضروری ہے لیکن جو بائیڈن کی کامیابی پر طالبان نے نہ صرف مبارکباد کا پیغام بھیجا بلکہ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر نئی امریکی حکومت نے طالبان سے معاہدے کو توڑا تو اس کے جواب میں طالبان جنگ کے لیے تیار ہیں۔ افغانستان کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ وہاں بہت بڑی تعداد میں برطرف وزیرِ دفاع مارک ایسپر کی ہدایت پر بلیک واٹر کو پہنچایا گیا۔ ان کے اس کام میں امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف مارک ملی بھی شامل ہیں۔ اُدھر بھارت نے امریکا کی مدد سے طالبان کے اتحادی پاکستان کو بھی دوطرفہ جنگ میں شامل کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ ایل او سی پر بھارت نے جنگ جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس طرح پاکستان کو افغانستان اور بھارت سے حملے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اس سے کہا جارہا ہے ’’سی پیک‘‘ کو ختم کردو اور چین کا ساتھ چھوڑدو اور اسرائیل کو تسلیم کرلو تو بہت کچھ دیا جاسکتا ہے جس سے پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کو بھی خصوصی ٹاسک دیا جارہا ہے۔
پینٹاگون کے نئے سربراہ کرسٹوفر ملر کا کہنا، ’’ہم دائمی جنگ کے لوگ نہیں اْس نظریے کے برعکس ہے، جس کے لیے ہم کھڑے ہیں اور جس کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے جدوجہد کی۔ تمام جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہیے‘‘۔ امریکی محکمہ دفاع کی یہ پالیسی صدر ٹرمپ کی ترجیحات سے مطابقت رکھتی ہے۔ وہ بھی امریکی فوجیوں کو کرسمس سے پہلے واپس لانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے چار سالہ دور اقتدار میں مِلر چوتھے وزیر دفاع ہیں۔ انہیں صدر ٹرمپ کی انتخابات میں شکست کے دو دن بعد نو نومبر کو پینٹا گون کا نیا سربراہ تعینات کیا گیا۔ کرسٹوفر ملر امریکی اسپیشل فورسز کے سابق آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی کے ماہر بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی گزشتہ کئی ماہ سے کوشش ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کو جلد ازجلد واپس بلایا جائے۔ قائم مقام امریکی وزیر دفاع کا کسی مخصوص جنگ کا ذکر کیے بغیر کہنا تھا، ’’بہت سے لوگ جنگ سے تنگ ہیں، میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔ لیکن یہ ایک نازک مرحلہ ہے، جس میں ہم اپنی کوششوں کو ایک قائدانہ کردار سے معاون کردار میں منتقل کر رہے ہیں‘‘۔
امریکا افغان طالبان کے ساتھ اس سال فروری میں امن معاہدہ بھی کر چکا ہے۔ افغانستان میں تقریبا پینتالیس سو امریکی فوجی موجود رہیں گے۔ ان فوجیوں کا مقصد افغان سیکورٹی فورسز کو مدد فراہم کرنا ہے۔ ان دنوں افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان مرکزی ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور اسی حوالے سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان آئندہ ہفتے کابل کا دورہ کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس قانونی حق اور وسائل ہیں کہ وہ ووٹنگ کے نتائج کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ مستقبل قریب میں انہیں عدالتوں میں شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ’الیکشن میں فراڈ ہوا‘ ہے لیکن اب تک انہوں نے کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کیا ہے۔ اگر وہ 20 جنوری تک ایسا نہ کرسکے تو نئے صدر کا اعلان ہوجائے گا اور ٹرمپ کو دفتر چھوڑنا ہوگا۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکا میں صدارت کی جنگ رک گئی ہے لیکن ابھی تک ختم نہیں ہو ئی اب تک یہی خبریں آرہی تھیں کہ جو بائیڈن سے بھارت اور اسرائیل دونوں وہ چھوٹ حاصل نہیںکر سکیں گے جو کچھ ان کو ٹرمپ کے دور میں تھی لیکن امریکا نے بھارت سے 27اکتوبر کو سٹیلائٹ معاہدہ کیا تھا اس میں بائیڈن کی مرضی شامل ہے اور وہ جاری رہے گی۔
بائیڈن ان دنوں حکومت سازی کی تیاری کر رہے ہیں۔ طریقہ کار کے مطابق ان کو 4ہزار سے زائد افراد کو اپنی حکومت چلانے کے لیے فوری ملازمت دینا ہو گی ماضی میں یہ تعداد کم ہوتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پہلے سے موجود سابق صدر کے لوگ موجود ہوتے تھے لیکن اس مرتبہ صدر ٹرمپ نے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اس لیے نئے ملازمین کی ضرورت ہوگی۔ امریکی انتخابات نے امریکا کی ساکھ کو بہت حد تک نقصان پہنچایا ہے لیکن یہ بات آج بھی درست ہے کہ ہاتھی مر کر بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ اب تک ان انتخابات کو صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا ہے اور نہ ہی سرکاری طور پر بائیڈن کی کامیابی کا اعلان ہو سکا ہے لیکن 14دسمبر سے قبل اعلان ضروری ہے تاکہ الیکٹرول ووٹ بائیڈن کو حاصل ہو سکیں اور وہ مکمل صدر منتخب ہو جائیں۔