پاکستان میں آئین کے مطابق ہی نظام حکومت تبدیل کیا جاسکتا ہے

676

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نیا پاکستان بنائیں گے‘ پھر کہا کہ ریاست مدینہ بنائیں گے اب کہا کہ وہ پاکستان میں چین جیسا نظام لانا چاہتے ہیں یہ فرمائیں کہ وزیر اعظم آخر ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں سینیٹ آف پاکستان ہائوس آف فیڈریشن کے سابق چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کیسا نظام ہوگا ؟یہ ہمارے آئین میں مکمل وضاحت کے ساتھ موجود ہے‘ کوئی بھی حکومت آئین کے اندر دیے گئے اصولوں کے برعکس کوئی نظام یہاں نہیں لاسکتی وفاق آج تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑا ہے، آئین پسندی اور قانون کی حکمرانی کے راستے کے بغیر فیڈریشن کمزور ہوگی۔ 2017ء میںا نہوں نے اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی بات کی تھی، سینیٹ نے اس وقت کے چیف جسٹس اور چیف آف آرمی اسٹاف کو ہاؤس کمیٹی میں مدعو کیا گیاتھا،2020ء میں، عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا، آج قوم کے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا مودجوہ صورت حال کا عارضی حل تلاش کیا جائے یا آئین کے تحت طویل المدتی حل نکالا جائے ۔انہوںنے کہاکہ ایک طویل مدتی حل کی اس وقت وفاق کو ضرورت ہے،پارلیمنٹ کی رہنمائی میں آئین کے تحت کام کرنے والے ریاست کے اداروں کے درمیان مکالمہ ضروری ہے ۔قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ عوام مرکز اور 3 صوبوں میں حکومت بناکر عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیلنے اور معیشت کو برباد کرنے والی پارٹی سے ہر قیمت پر جان چھڑانا چاہتے ہیں اور انہیں مسلط نہیں ہونے دینگے، کرپشن پر سیاست کرنے والی تحریک انصاف خود کرپشن سے آلودہ ہے ،دوسروں پر کرپشن کے الزام لگانے والے اپنی حکومتی کرپشن کا جواب کب دیں گی، چینی، آٹا، ادویات اسکینڈل، بی آر ٹی اور مالم جبہ سمیت کئی ایک کرپشن کی داستانیں رقم کرنے والے ملک و قوم کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں،پی ٹی آئی کی حکومت اور مافیاز کا گٹھ جوڑ ہوگیا ہے ،کرپشن اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ،عمران خان کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ ملک کے وزیراعظم نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر ہیں، حکومت عوام کو ڈلیور کرنے کے بجائے اپوزیشن کے مقابلے میں اپوزیشن کر رہی ہے ،اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت کے جلسے سمجھ سے بالاتر ہیں ،یہ حکومتی رخصتی کے واضح اشارے ہیں تبدیلی سرکار نے کو مایوس کیا ہے سہانے خواب دکھانے والوں کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں کسان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر پاکستان میں اب ایک ایسی پارٹی برسراقتدار ہے جو آٹا چینی چوروں کے ساتھ ملکر اپنی ریڑھ کی ہڈی اپنے ہاتھوں توڑ رہی ہے اگر حکمران کسانوں کو ریلیف نہیں دے سکتے تو تکلیف دینے سے بھی باز رہیں،جس طرح لاہور کی سڑکوں پر کسانوں کو گھسیٹا گیا ایسا تو دور آمریت میں بھی نہیں ہوتا ،پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان سے رہنما اور سینیٹر سردار یعقوب ناصر نے کہا کہ وزیر اعظم ہمیں وہاں لے جارہے ہیں کہ جہاں ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی ہے، نیا پاکستان کی بات اور بعدمیں ریاست مدینہ کی بات کی‘ مگر ریاست مدینہ کے قیام کے لیے صرف باتیں ہی کی ہیں عملی طور پر کچھ نہیں کیا اور صرف باتوں سے تو کچھ نہیں ہوتا، اسمبلی میں کوئی ایسا قانون لایا جائے جس میں ملک میں ریاست مدینہ کا نظام لانے کا کوئی خاکہ دیا جائے مگر اس جانب تو کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، سب جانتے ہیں کہ ان کے قول اور فعل میں کس قدر تضاد ہے، نہ ملک میں ترقی ہورہی ہے اور نہ معیشت درست ہورہی ہے، صرف اپوزیشن پر ہی الزامات لگائے جارہے ہیں‘ اس حکومت کو صرف یہی ایک کام آتا ہے، وزیر اعظم نے نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کی بات صرف اس لیے کی ہے کہ لوگ اسے انہی باتوں یا نعروں کی وجہ سے یاد کرتے رہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے، پاکستان مسلم لیگ(ج) کے سربراہ اقبال ڈار نے کہا کہ ہمارے ملک میں سیاسی نظام میں بہت بہتری کی گنجائش ہے اور اس سے بھی زیادہ ملک کی ترقی، خوشحالی اورہر شخص کے لیے سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے بہتر نیت کے ساتھ کام کرنے کی بات ہے، جس کا ہمارے ہاں فقدان ہے بس سیاسی نعرے بازی سے کام چلایاجارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے چین نے جو کچھ حاصل کیا وہ قابل ِ تحسین ہے ۔انہوں نے 40سال میں 70کروڑ افراد کو خط ِ غربت سے نکالا یہ ایک ماڈل ہے، کمیونسٹ پارٹی نے چین کے ذہین ترین افراد کو چُنا اور اُنہیں اوپر لائے، اِس سے بھی زیادہ چین نے 7سال میں وزیر سطح کے450 افراد کو بدعنوانی کے الزامات میں جیلوں میں ڈالا کوئی بھی ملک قیادت کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے غربت کا شکار ہوتا ہے، پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں، کرپٹ لیڈر شپ کی وجہ سے ملک غریب ہے آزاد کشمیر اسمبلی کے اسپیکر شاہ غلام قادر نے کہا کہ ریاست مدینہ کی بات بہت اچھی ہے تاہم اس کے مقاصد ذہن میں رہنے چاہئیں کہ یہ ایک ایسی ریاست تھی جہاں نہ ظلم تھا اورنہ کسی کے ساتھ غیر انصافی ہوتی تھی مگر عمومی رائے یہی ہے کہ یہاں احتساب کے نام پر دونوں کام ہورہے ہیں، چین قیام پاکستان کے وقت ہی سے پاکستان کا دوست چلا آ رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی دوستی وسیع تر اور مضبوط و مستحکم ہوتی جاتی ہے، پاکستان میں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، نظام بدلتے رہتے ہیں،چہرے بھی بدل جاتے ہیں، اِسی طرح چین نے اپنے لیے جو سیاسی نظام منتخب کیا وہ ایک جماعتی ہے، نظاموں کے اس تفاوت کے باوجود دونوں ممالک کی دوستی بڑھتی رہی، کمیونسٹ پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے،لیکن اس ایک جماعت نے بھی اپنے سیاسی نظام میں کئی طرح کے تجربات کیے ہیں، عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھیوں کا نظام مختلف تھا،اُن کے بعد کئی ایسے ادوار آئے جب اس نظام میں دور دس اصلاحات ہوئیں، بڑے بڑے لیڈر آئے اور چلے گئے لیکن چین کی سیاست آگے بڑھتی رہی، جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مولانا عبدلاکبر چترالی نے کہا کہ وزرا اور مشیر نااہل ہیں اور وہ انہیں درست صائب مشورہ نہیں دے رہے اور وزیر اعظم بھی اگر کوئی دعویٰ نہ کرے تو پھر کیا کرے، ان کے پاس اختیارات تو ہیںہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف راستہ بھول گئی ہے اور جماعت اسلامی ہی صرف ملک کو درست راستہ بتا سکتی ہے۔ انہوں نے کہ اب کہا جارہا ہے کہ چین کا نظام لائوں گا لہٰذا ہم اب نیا پاکستان کے بجائے چینی نظام کی جانب جارہے ہیں‘ لکی مروت سے متحدہ مجلس عمل کے رکن قومی اسمبلی اور جے یو آئی (ف) کے رہنما محمد انور نے کہا کہ حکومت نا تجربہ کاروں پر مشتمل ہے جن کی اپنی کوئی بات نہیں ہے جب کسی دوسرے کے منہ کی بات کرنی ہو تو پھر اپنا منہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہ جسارت کے سوال کاجواب ایک جملے میں کہہ دی ہے اس حکومت کے پاس کوئی منصوبے ہی نہیں ہیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مرکزی رہنما ملک ظہیر احمد نے کہا کہ عشروں سے چین کی معیشت چھلانگیں لگاتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے پوری دُنیا کے ساتھ اس کی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے،اس کا سیاسی اثرو رسوخ بھی تدریجاً وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اندرونِ ملک ایک زمانے میں سائیکلوں کا شمار مشکل تھا تو اب کاریں گنی نہیں جاتیں، دفاعی شعبے میں بھی چین نے کلانچیں بھری ہیں اور اپنے آپ کو دُنیا کی جدید ترین اسلحے کی حامل قوتوں کے مقابل لاکھڑا کیا ہے، یہ ساری کامیابیاں اگر چین کے کمیونزم کی برکت کی بدولت حاصل ہوئی ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے دُنیا میں اور بھی بہت سے ممالک میں یہ نظام قائم ہے وہ چین کی رفتار سے ترقی کیوں نہیں کر سکے؟ بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی احسان اللہ نے بتایا کہ نیا پاکستان‘ ریاست مدینہ کا قیام اور پھر اب چین کے نظام کی بات کی گئی ہے یہ سب بہت مشکل کام ہے مگر ہوسکتا ہے ملک میں بہتری لانے کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔سارک ایس ایم ای کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین سجاد سرور نے کہا کہ چین نے جو نظام اپنایا وہ کوئی ہوا میں معلق نہیں ہے،وہاں دُنیا کے ہر ملک کی طرح ایک آئین نافذ ہے، جس کے تحت انہوں نے اپنا نظام تشکیل دیا اور اس آئین کی روشنی میں اپنے سیاسی اور معاشی ادارے بنائے، جو قیادت کی ہدایات کی رہنمائی میں کام کرتے ہیں، پاکستان میں مختلف قسم کا نظام نافذ ہے، جس میں ہر چند سال بعد نئے تجربات شروع ہو جاتے ہیں، ہمیں خود سے سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے ہاں نافذ آئین کو بالادست کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں یا دوسروں کی چمک دار سیاست سے مرعوب ہو کر اپنے ہاں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں؟ جب تک ہمارے ہاں موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام نافذہے ہمارا ملک اسی کے تابع ہی چلے گا،اگر ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے یا ہمیں قدم قدم پر رکاوٹیں در پیش ہیں تو ہمیں اِس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے؟ تجربات دُنیا بھر میں ہوتے ہیں،لیکن ہم نے اس معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،آج تک تجربات کی بھٹی کو گرم رکھا ہوا ہے۔ فیڈریشن آف رئیلٹر پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ اسلامی نظام ہی ہمارا مقدر ہونا چاہیے کیونکہ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں قیام پاکستان کے بعد جو جمہوری نظام نافذ ہوا اس میں بیورو کریسی اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت اب کوئی راز نہیں رہی،جو شخصیات اس نظام کا حصہ تھیں وہی اب اس کے رازوں سے پردے اٹھا رہی ہیں اور ادھورا ہی سہی اپنے اپنے حصے کا جھوٹ سچ بول رہی ہیں، پہلے تو 9سال ہم آئین ہی نہ بنا سکے اور جب بنا تو اسے چلنے نہ دیا اور 2ہی سال میں آئین ختم کر کے ایک فوجی حکومت قائم کر دی،اگر آمرانہ اختیارات ہی کسی سیاسی کامیابی کی ضمانت ہوتے تو یہ حکومت کامیاب ترین حکومت کہلاتی،لیکن جب اس کا خاتمہ ہوا تو پتا چلا بنیادیں ہل چکی ہیں، جس کا نتیجہ اس حکومت کے جانے کے 3سال بعد ہی نکل آیا۔اس کے بعد بھی ہم نے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے، 70سال میں ہم بہت سے ناکام تجربات کر چکے۔ایک تجربہ جسے بندوبست بھی کہا جاتا ہے ابھی جاری ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ اِس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔