دور غلامی کی نحوست

442

جب کسی قوم کی تلوار میدان جنگ میں شکست کھا جاتی ہے تو اس کی تہذیب، تمّدن، ثقافت حتیٰ کہ اس کا قلم بھی ہار جاتا ہے۔ ہزار چاہنے کے باوجود بھی انسان اپنے تہذیب، تمّد ن، ثقافت حتیٰ کہ اپنے دین پر مکمل عمل پیرا ہونے سے بھی رہ جاتا ہے۔ اس کی شریعت بھی رعایتوں پر مشتمل ہوجاتی ہے۔ بلکہ یو ں کہیے کہ مغلوب قوم کو غالب قوت کے بنائے گئے قوانین کے مطابق اپنے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں۔ جب دورِ غلامی کی رات طویل ہوجاتی ہے تو انسان اپنی غلامی پر فخر کرنے لگتا ہے اس کو اپنے سابقہ ہر اس رویے پر شرمندگی ہونے لگتی ہے جن پر وہ اپنے ماضی میں فخر کیا کرتا تھا۔ جسمانی غلامی آہستہ آہستہ دل اور دماغ کو بھی اپنا اسیر بنالیتی ہے وہ حاکم قوم کی زبان بولنے میں، ان جیسے کپڑے، کھانے اور رہن سہن پر فخر محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہمارے سیاسی، معاشرتی، معاشی زندگی میں بکثرت مل جائیں گی۔ سیاسی زندگی میں اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ خلافت اور اس کے بعد بادشاہت کی جگہ نام نہاد جمہوری نظام نے جب سے لی اب نظام سیاست و حکومت ساری مسلم دنیا کو بھی اچھی لگ رہی ہے اور روشن خیال مسلمان طبقہ بھی اس کے گن گا رہا ہے اور اس پر فخر محسوس کررہا ہے اور اس کو اپنا شاندار ماضی معیوب نظر آنے لگا ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو بنیاد پرست ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی معاشرے میں ایسا شخص ہوتا جس کے بارے میں لوگوں کو یہ معلوم ہوتاکہ اس کا کاروبار سودی ہے تو لوگ اس سے قطعہ تعلق کرتے، حتیٰ کہ اس کے گھر کے کھانے پینے کو بھی اپنے لیے حرام سمجھتے۔ ہمارا اپنا تعلیمی نظام تھا جس نے دنیا کے بڑے بڑے نامور علمی شخصیات دنیا کو دیں اسی طرح فحاشی اور بے حیائی کو مسلمان کیا غیر مسلم بھی برا سمجھتے اور اس سے نفرت پائی جاتی تھی۔ اپنی زبان بولنے پر ہم فخر محسوس کرتے تھے۔ اور دوسروں کی زبان بولنا ہمارے لیے باعث فخر نہیں تھا۔ ہمارا رہن سہن ہماری اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق تھا۔ ہمیں اسی پر فخر تھا۔ ہماری تحریریں اور تقریریں بھی ہمارے شاندار ماضی کی غماز تھیں۔ غرض یہ کہ ہماری ہر چیز ہماری اپنی تھی۔ مگر
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
برسہا برس کی انگریزوں کی غلامی سے آزادی تو حاصل ہوگئی اور اس بات کو ستّر سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے مگر اس غلامی نے ہماری ہر چیز کو بدل ڈلا ہے۔ آج انگریزی زبان بولنے پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں اور جن کو یہ زبان نہیں آتی وہ اپنی زبان بولنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ کسی انگریز کی پینٹ اگر گھٹنوں سے پھٹ جائے اور وہ اس کو پہن لے تو ہمارے معاشرے میں نوجوان اس طرح کی پھٹی ہوئی پینٹ خرید کر پہن رہے ہوتے ہیں۔ وہ لباس جو ماضی میں پہن کر ہم شرمندگی اور بے حیائی محسوس کرتے تھے اب وہی لباس پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری تقریبات میں بھی ہمارا رنگ پھیکا ہوگیا اور اس میں غیروں کے وہ طریقے ہم نے اپنا لیے کہ الامان والحفیظ حتیٰ کہ جو چیز انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے یعنی دین کا نقطۂ نظر وہ تک تبدیل ہوگیا۔
اگر دور غلامی میں مذہبی تاریخ کو بھی دیکھا جائے تو اس دور میں علماء کی بھی بڑی تعداد سامنے آئی جس نے نجانے کیوں دین کو سیاست سے جدا کرکے اسلام کو دفاعی حالت میں پہنچا، دیا اس نظریے نے تو ہر خاص وعام کو اسلام کے سیاسی نظام سے نا بلد کر کے رکھ دیا۔ اور اس بات کو تو طاق نسیان کی زینت بنا دیا کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے اس کا اپنا سیاسی نظام ہے اور قرآن و سنت میں اس کی مکمل رہنمائی موجود ہے۔ لیکن بیسویں صدی میں علامہ اقبال اور سید ابولااعلیٰ مودودی جیسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے صدیوں کی پڑی اس گرد کو جو اسلام کے اس نظریے پر پڑی تھی کہ دین اور سیاست جدا جدا ہیں اور دین کا تعلق انسان کے نجی معاملات سے متعلق ہے، اس کو صاف کیا اور دنیا کے سامنے اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے اسلام کا حقیقی اور روشن چہرہ دکھایا ان صاحبان نے جو نظریہ پیش کیا وہ اس قدر مضبوط دلائل پر مبنی تھا کہ اس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ آج ان اسلاف کی اخلاص کے ساتھ کی گئی محنت سے چہار دانگ عالم سے دور غلامی کی نحوست چھٹتی جارہی ہے۔