فرانس کی اسلام دشمنی کی وجہ کیا ہے؟

1406

فرانس کے صدر ماکروں نے کہا ہے کہ اسلام ساری دنیا میں بحران سے دوچار ہے اور وہ فرانس کی سیکولر اقدار کو سخت گیر اسلام سے محفوظ بنانے کے لیے جلد قانون بنائیں گے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو سخت جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام دشمنی کے چکر میں یورپ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اسلام دشمنی یورپ کو لے ڈوبے گی اور وہ خود اس چکر میں پڑ کر اپنے آپ کو ختم کر لے گا۔
اسلام کے خلاف فرانسیسی صدر کے اس بیان پر عام طور پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے لیکن تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کو حیرت نہیں ہوئی ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ سے فرانس کو افریقا کی مسلم نوآبادیوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے جنگوں میں ناکامی کا تلخ احساس ستاتا رہا ہے۔ سب سے زیادہ تاسف فرانس کو الجزائر کے کھونے کا ہے جس پر اس نے 1830میں حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا اور پھر 1954میں الجزائر کے آزادی پسندوں کی تنظیم نے احمد بن بیلا، ہواری بومیدین اور بلقاسم کی قیادت نے آٹھ سال کی چھاپا مار جنگ کے بعد الجزائر پر قابض فرانسیسی فوج کو خفت آمیز شکست دے کر آزادی حاصل کی تھی۔ اس جنگ میں فرانس کے 92329 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ آخر کار 1962 میں فرانسیسی فوج کو پسپا ہونا پڑا ور الجزائر فرانسیسی تسلط سے آزاد ہو گیا۔ مسلم مزاحمتی دستوں کے ہاتھوں یہ شکست فرانس اب تک نہیں بھلا سکا ہے۔ شمالی افریقا میں قدرتی وسائل سے مالا مال الجزائر فرانس کے لیے بہت اہم تھا اور اس کی جغرافیائی حیثیت پڑوسی افریقی ملکوں پر نظر رکھنے کے لیے اہمیت کی حامل تھی۔
فرانس، مراکش پر قبضہ کرنے کے لیے 1830 کی جنگ کو نہیں بھولا گو فرانس اس میں کامیاب رہا لیکن اسے بھاری جانوں کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس زمانے میں فرانس نو آبادیوں کے پھیلائو میں ہندوستان کے ہم پلہ تھا۔ اسے اس بات کا شدید احساس ہے کہ اس کی نو آبادیاں ایک ایک کرکے ختم ہوگئیں اور مسلمان ان نوآبادیوں کے خاتمے کے ذمے دار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف رہا ہے اور صدر ماکروں کی اسلام دشمنی اسی روایت کے عین مطابق ہے۔ ویسے اسلام کے خلاف صدر میکروں کی ہرزہ سرائی ایک حد تک مسلمانوں سے نا شکری ہے کیونکہ اس زمانے میں جب فرانس کی معیشت کو افرادی قوت کی ضرورت تھی تو یہ الجزائر کے مسلمان تھے جنہوں نے فرانس کی معیشت کو سہارہ دیا اب صدر ماکروں ان کو علٰیحدگی پسند قرار دے کر ان پر پابندیوں کے قوانیں منظور کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
فرانس میں اس وقت مسلمانوں کی آبادی 57لاکھ 60ہزار ہے۔ ان سب کو سخت گیر قوانین کی زنجیروں میں جکڑنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا کہ صدر ماکروں سمجھ رہے ہیں۔ پھر اتنی بڑی آبادی کو صدارتی انتخابات پہلے ان کے انتخابی عمل سے محروم کرنا ایک بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ فرانس یورپی یونین میں شامل ہے اس بنا پر فرانس کے لیے، مسلمانوں کے خلاف سخت پابندیاںعاید کرنا آسان نہ ہوگا۔