پاکستان میں آمدنی کی غیر مساویانہ تقسیم

371

پرانے زمانے میں جب بادشاہوں، راجائوں اور مہاراجائوں کی حکومت ہوتی تھی تو اُس وقت کے خدائوں کے ساتھ وزیر مشیر، شاہی طبیب، شاہی معلم اور درباریوں کی ایک فوج ہوتی تھی اسی میں آپ سپہ سالار اور کوتوال اور مذہبی پیشوائوں کو بھی شامل کرلیجیے۔ مزید یہ کہ جاگیردار اور زمینداروں کو بھی ملالیں تو طبقہ اشرافیہ سمجھا جاتا تھا جب کہ باقی عوام میں ہاری، مزدور، دکاندار، اسی طرح کے چھوٹے موٹے کام کرکے دو وقت کی روٹی کمانے والے لوگ تھے۔ آبادی کا بڑا حصہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جو انتہائی غربت اور مفلسی میں زندگی گزارتے تھے۔ جیسے جیسے دنیا میں تہذیب، تمدن، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کا معاملہ پروان چڑھ رہا ہے طبقہ اشرافیہ اور غریب اور مفلس طبقے کے درمیان ایک اور گروہ وجود میں آیا ہے جیسے متوسط طبقہ (Middle Class) کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی آبادی کے تینوں طبقوں کے تناسب پر سروے ہوتے رہے ہیں ویسے تو پاکستان عالمی درجہ بندی کے مطابق نچلی درمیانی آمدنی (Low Middle Income) والے ممالک میں شمار ہوتا ہے جن کی فی کس آمدنی ایک ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ غربت کے پیمانوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 25 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو مکمل خوراک بھی دستیاب نہیں۔ باقی 30 سے 35 فی صد انتہائی غریب ہے، اس کے بعد مڈل کلاس یا متوسط طبقہ ہے اس کے بعد 25 سے 30 فی صد آبادی بہت مالدار ہے اور 10 سے 15فی صد لوگ وہ ہیں جو اشرافیہ میں شامل ہیں۔ جن میں پراپرٹی ڈیلرز، بڑے تاجر، جاگیردار، مسلح افواج کے افسران، بیورو کریٹس، سیاستدان اور حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اداروں اور کارپوریشنوں کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔ ان میں سے وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح سرکاری ملازمت میں شمار کیے جاتے ہیں ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات اور انتقال کی صورت میں بیوہ کو پنشن کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے۔
اس پنشن کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ ورلڈ بینک نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ یہ اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ آنے والے برسوں میں بجٹ کا بڑا حصہ ان ادائیگیوں میں خرچ ہوجائے گا اور عوام کے لیے ترقیاتی اخراجات کے لیے بہت کم فنڈ بچے گا۔ مثلاً اگر عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے چیف جسٹس صاحبان کو ملنے والی پنشن اور جیوڈیشل الائونس کو ملا کر دیکھا جائے تو ان کی ماہانہ پنشن 6 سے 9 لاکھ روپے بنتی ہے۔ پٹرول، گیس، بجلی، ٹیلی فون، کار اور ڈرائیور اس کے علاوہ ہیں۔ سال 2020-21 میں اس کا تخمینہ 470 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ معاملہ انہی کا نہیں بلکہ بیورو کریسی، اعلیٰ حکام اور فوج کے اعلیٰ افسران کا بھی یہی معاملہ ہے۔ فوجی افسران کا تو حصہ قابل قدر ہے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ لیکن پاکستان کے معتبر ماہرین معاشی امور کی رائے ہے کہ پاکستان میں آمدنی کی غیر مساویانہ تقسیم ہے۔ پاکستان کے اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام، دہشت گردی اور مہنگائی کی ایک اہم وجہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے چناں چہ وہ آسانی سے کسی ملک دشمن گروپ کا آلہ کار بن جاتی ہے۔
تعلیم و صورت، سڑکوں، پارکوں اور پلوں کی تعمیر، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب جیسے کام اب صوبوں کی ذمے داری ہیں۔ جو صوبے اچھی کارکردگی اور ترقیاتی کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں وہاں نسبتاً صورت حال بہتر ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہے وہاں لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ جو امن وامان اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور طبقہ اشرافیہ کی مراعات کو ختم کرنے کے لیے کئی وزارتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تب ہی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔