ڈاکٹر کرنل نجیب صاحب۔ مرحوم و مغفور

1003

جب ہم کراچی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے رمضان میں روزہ رکھ کر اپنی اسپیکر شپ کی الیکشن مہم چلا رہے تھے اور اس کے لیے ہمیں کراچی یونیورسٹی کے تیس سے زائد شعبوں میں جانا پڑتا تھا تاکہ ہم کونسلر طلبہ و طالبات سے رابطہ کر سکیں اور ان کے ووٹ کے لیے انہیں اپنے حق میں قائل کر سکیں۔ دراصل جامعہ کراچی میں پہلی مرتبہ الیکشن ہارنے کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنی اسپیکر شپ کے لیے اس خاکسار کو کھڑا کیا تھا ہمارے مدمقابل جناب قیصر بنگالی والا تھے جو لبرل کی نمائندگی کر رہے تھے۔ لہٰذا ایک ہی دن میں جامعہ کراچی کے کئی کئی چکر لگانے پڑتے تھے وہ بھی روزے کی حالت میں۔ یہ 1975 کی بات ہے۔ نتیجتاً ہم الیکشن تو جیت گئے لیکن صحت ہار گئے اور ہمیں بقائی اسپتال ناظم آباد میں داخل ہونا پڑ گیا جہاں ہم پندرہ دن داخل رہے۔ اس دوران جامعہ کا جو بھی پوائنٹ وہاں سے گزرتا وہ بقائی اسپتال پر خالی ہوجاتا تھا۔اس صورت حال سے بقائی کی انتظامیہ سخت پریشان تھی۔ لہٰذا انہوں نے کسی نہ کسی طرح ہمارا بخار اتار دیا۔ وقتی طور پر تو ہم صحت یاب ہوگئے لیکن فوراً ہی دوبارہ بیمار پڑ گئے۔
مرتا کیا نہ کرتا مجبوراً ہم نے سعید کلینک آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع اسپیشلسٹ ڈاکٹر نجیب سے رابطہ کیا ڈاکٹر نجیب کی تعریف زباں زد عام تھی۔ وہ نہ صرف ڈاؤ میڈیکل کالج کے پروفیسر اور پرنسپل رہ چکے تھے بلکہ ڈھاکا میڈیکل کالج اور لیاقت میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی رہ چکے تھے مزید سونے پر سہاگا یہ کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں برٹش آرمی کی میڈیکل کور میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے اور کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ایک تو وہ اتنے بڑے ڈاکٹر اوپر سے کرنل بھی، ظاہر ہے ان کا رعب اور دب دبہ سارے کلینک پر حاوی تھا اُس زمانے کے بڑے بڑے مشہور ڈاکٹر جن میں ڈاکٹر بقائی وغیرہ بھی شامل تھے وہ سب ان کے شاگرد رہ چکے تھے چہرے پر فوجیوں والا رعب ہر وقت طاری رہتا تھا، ہم جیسے مریضوں کا تو ان کو دیکھ کر ہی خون خشک ہو جاتا تھا۔
وقت کے بہت پابند تھے ایک دفعہ ان کے برابر کے ایک کلینک میں بیٹھے ڈاکٹر عبدالغنی لویا جو ای این ٹی اسپیشلسٹ تھے اور ستم ظریفی یہ کے ڈاکٹر نجیب کے شاگرد بھی رہ چکے تھے اتفاق سے ایک دن وہ تاخیر سے آئے ڈاکٹر نجیب نے ان کے سیکرٹری سے کہا جیسے ہی وہ آئیں ان کو میرے کمرے میں بھیج دیا جائے۔ جیسے ہی ڈاکٹر غنی آئے ان کو کرنل صاحب کے پاس حاضری دینی پڑی اور وہ نجیب صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ سے مستفید ہوئے وہ تو شکر ہے کہ کرنل صاحب ریٹائر ہوچکے تھے ورنہ ان کا کورٹ مارشل ہی ہوجاتا۔ مگر ان کی فرماں برداری تھی کہ سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہے اور آئندہ وقت کی پابندی کی یقین دھانی کراتے رہے۔
خیر آمدم بر سر مطلب۔ جب ہمارا نمبر آیا تو ہم بھی ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش ہو گئے پہلی دفعہ ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر تو جسم پر کپکپی طاری ہو گئی چہرے پر بہت موٹے شیشوں کی عینک لگائے ہوئے تھے اور اس کے باوجود تمام رپورٹ اور نسخے پڑھنے کے لیے ایک اور موٹا سا عدسہ بھی استعمال کرتے تھے انہوں نے بہت اچھی طرح سے ہماری معروضات سنیں اور پھر ہمیں اچھی طرح سے ٹھونک بجا کر (ربڑ کی ہتھوڑی سے) چیک کیا اس کے بعد انہوں نے تمام رپورٹیں پڑھیں اور گزشتہ علاج کی ہسٹری معلوم گی پھر فرمانے لگے بیٹا ظفر تم سے تو میں بعد میں نمٹوں گا چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے فوراً ہی ڈاکٹر بقائی کو فون ملایا اور ان سے بولے یہ تم نے پڑھا ہے اس بچے کا کیس خراب کر دیا بالکل غلط تشخیص کی ہے۔
پھر کراچی لیبارٹری کے ڈاکٹر عالم صاحب سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں اس بچے کو بھیج رہا ہوں آپ اس کا فوری ٹیسٹ کرکے اس کی رپورٹ دو گھنٹے کے اندر مجھے دے دیں، ڈاکٹر عالم صاحب بھی ان کے شاگرد رہ چکے تھے ہم فوراً ہی ڈاکٹر عالم صاحب کے پاس پہنچ گئے انہوں نے ہمارے سینے کی ہڈی سے خون نکالا اور لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا جیسے ہی ٹیسٹ کی رپورٹ آئی وہ رپورٹ لے کر ہم ڈاکٹر نجیب صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوگئے ڈاکٹر صاحب نے رپورٹ دیکھتے ہی بہت معمولی سی دوائیوں سے ہمارا علاج شروع کیا اور ہمیں پرہیزی کھانا بھی بتایا اور کہا کہ آپ ہر ہفتے اپنے بلڈ کی رپورٹ دکھا دیا کریں ہم نے ایک ماہ تک ایسا ہی کیا الحمدللہ ایک مہینے میں ہم بالکل تندرست ہوگئے۔
ہمارے علاج کے دوران انہوں نے پوچھا کہ ہم کیا جاب کرتے ہیں ہم نے عرض کیا کہ ابھی تازہ تازہ ایم ایس سی کیا ہے۔ کہنے لگے جب تک تمہاری جاب نہیں ہو جاتی میں تم سے فیس نہیں لونگا پھر کہنے لگے بینک میں نوکری کرو گے ہم نے کہا اندھا کیا چاہے دو آنکھیں فوراً حامی بھر لی اتفاق سے وہ حبیب بینک کے چیف میڈیکل آفیسر بھی تھے انہوں نے اپنے لیٹر ہیڈ پر ایک خط حبیب بینک کے ایچ آر کے ہیڈ کو لکھا۔ یہ خط لے کر ہم حبیب بینک گئے جہاں ہمارا تحریری ٹیسٹ ہوا اور ابتدائی انٹرویو کے بعد فائنل انٹرویو ہوا گویا بینک نے ان کے لیٹر کو ریفرنس کے طور پر استعمال کیا لیکن ہمارے ساتھ کوئی فیور نہیں کیا اور ہمیں میرٹ کے سارے پروسیجر سے گزارا اور جب ہم نے میرٹ پر تمام ٹیسٹ اور انٹرویوز پاس کرلیے تو انہوں نے ہمیں اپائنٹمنٹ لیٹر دیا۔ مگر اتفاق سے میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا بھی ضروری تھا بینک نے ہمیں دوبارہ کرنل صاحب کے پاس میڈیکل ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لیٹر دیکھ کر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا جو بادشاہ بھی بادشاہوں کے ساتھ نہیں کرتے۔
کرکے دل کا شیشہ چور…
ایسے بیٹھے ہیں حضور…
جیسے جانتے نہیں پہنچانتے نہیں…
حالانکہ ہم انہیں کے دیے ہوئے لیٹر پر حبیب بینک گئے تھے۔ خیر انہوں نے ہمیں دوسرے تمام امیدواروں کے ساتھ لائن میں کھڑا کر دیا اور ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں یہاں تک کہ ہماری آنکھیں اور چشمے کا نمبر دیکھ کر کہنے لگے کہ تم تو بالکل اندھے ہو اور دیوار پر لگے ایک چارٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس کو پڑھنا شروع کرو ہم نے پورا چاٹ تو پڑھ دیا لیکن آخری لائن میں کچھ گڑ بڑ کرگئے۔ کہنے لگے تم ایک طرف کھڑے ہو جاؤ تمہارا آنکھوں کا ٹیسٹ دوبارہ ہوگا سب سے آخر میں۔ ہم دم بخود ایک طرف کھڑے ہوگئے کہ پتا نہیں اب ڈاکٹر صاحب ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ خیر ہم نے بھی دل ہی دل میں وہ آخری لائن رٹ لی اور جیسے ہی ہمارا دوبارہ نمبر آیا ہم نے آنکھیں بند کر کے وہ لائن صحیح صحیح پڑھ دی ڈاکٹر صاحب بھی حیران ہوگئے ہم نے ان کی حیرانی دور کرتے ہوئے کہا دراصل آپ کے خوف کے مارے ہمارا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے آنکھوں کو اضافی خون مل گیا اور ہماری آنکھوں نے آخری لائن صحیح سے پڑھ لی ثابت ہوا کہ ہم بلڈ پریشر میں زیادہ اچھی طرح سے پڑھ سکتے ہیں ڈاکٹر صاحب ہماری طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے تم نے میرے ریفرنس لیٹر کی لاج رکھ لی۔
البتہ کافی عرصے تک کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے کے بعد ہماری آنکھ کا نبر 4 ڈگری بڑھ کر مائنس 7.5 ہوگیا۔ اس دوران ہمیں پھر آنکھوں کی تکلیف ہوئی۔ اور ہم نے آنکھ کے اسپیشلسٹ کو دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے دو نمبر کم ہوگئے ہیں۔ ہم نے حیرانگی سے پوچھا کہ اب تک تو ہم نے نمبر بڑھتے ہی دیکھے ہیں یہ کم کیسے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ کبھی کبھی ہزاروں میں ایک کیس ایسا ہوجاتا ہے کہ بلڈ پریشر کی وجہ سے نسوں کو اضافی خون مل جاتا ہے اور وہ بہتر کام کرنے لگتی ہیں۔ لہٰذا آپ کے بھی دو نمبر کم ہوگئے ہیں اور انہوں نے نئے نمبر کی عینک لگادی اور ہم صحیح صحیح دیکھنے لگ گئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہم نے ڈاکٹر نجیب صاحب کو جو تھیوری پیش کی تھی کئی سال بعد وہ درست ثابت ہوگئی۔ اللہ کا شکر ہے جس نے عزت رکھ لی۔
خیر ڈاکٹر صاحب ہمارے خاندانی ڈاکٹر بن چکے تھے۔ اسی دوران کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ہمارے بڑے بھائی مرحوم صالح صاحب کو گردن توڑ بخار ہوگیا اور وہ بے ہوشی کی حالت میں سول اسپتال میں داخل کردیے گئے وہاں اتفاق سے ڈاکٹر نجیب صاحب سے واسطہ پڑا۔ انہوں نے ٹیسٹ کرائے اور بتایا کہ اس مریض کا علاج پینسلین کے انجکشن میں ہے مگر مریض اس سے الرجی ہے اگر پینسلین سے علاج کیا تو مریض گردن توڑ بخار سے پہلے ہی فوت ہوجائے گا۔ لہٰذا ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا اور انہیں مسئلہ بتایا کہ اب اس کا حل یا متبادل علاج بتائیں۔ کوئی صحیح جواب نہ دے سکا۔ مگر ڈاکٹر نجیب صاحب نے حل بتایا کہ سلفاڈائزین کی 24 گولیاں پیسیں اور مریض کو زبردستی پلائیں۔ تین دن تک اسی طرح کیا گیا اور ہمارے بھائی صاحب دس دن بعد ہوش میں آگئے۔ ایسا ہزاروں میں کسی ایک مریض کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ نے دوسری زندگی دی۔ اور ہمارے بھائی صاحب الحمدللہ اس کے بعد چالیس سال سے زائد زندہ رہے اور نارمل زندگی گزاری۔ اس سارے معاملے میں ڈاکٹر نجیب صاحب کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اپنی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔