توہین آمیزخا کے، عالم اسلام کی خاموشی

265

نیوزی لینڈ کے انتخابات میں جسنڈا آرڈرن کی دوسری مرتبہ کامیابی نے پورے یورپ کو یہ پیغام بھیج دیا ہے کہ یورپی یونین کے تمام ارکان جن پر ’’یورپی یونین کے سیکولر دستور‘‘ پر عملدرآمد کی ذمے داری عائد ہوتی ہے مسلمانوں سے جاری جانبداری کا خاتمہ کریں اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو فرانس میں استاد کے قتل اور اس کے جواب میں مسلمان نوجوان کی شہادت جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ان کو روکنا دنیا بھر میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ فرانس میں ایک طویل عرصے سے مسلمانوں بالخصوص مسلم خواتین پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی دہشت گردی پر حکومت مسلم اور غیر مسلم کو یکساں نظر سے دیکھتی ہے جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈرن نے عام انتخابات میں زبردست اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ آرڈرن کی سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی نے 64 نشستیں حاصل کی ہیں یہ غیر معمولی پارلیمانی اکثریت ہے۔ جسنڈا آرڈرن نے گزشتہ سال نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر ہونے والے حملوں کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جس طرح رابطے قائم کیے اور ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا اس کی پورے یورپ میں کوئی مثال نہیں ملتی، ان کی اپنی بھاری بھرکم آواز پر شدت سے عملدرآمد کی وجہ سے مقبولیت میں اضافہ ہوا اس کے علاوہ خود کار ہتھیاروں پر پابندی کے اعلان نے ان کوکامیابی سے ہمکنار کیا۔
نیوزی لینڈ میں کوئی بھی پارٹی 1996 سے واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے کیونکہ 1996 میں مخلوط ممبر تناسب (ایم ایم پی) نمائندگی کا نیا ووٹنگ نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ آرڈرن نے حالیہ انتخابات کو ’’کووڈ الیکشن‘‘ کا نام دیا تھا۔ آرڈرن نے مہربانی اور رحم دلی کے ساتھ دہشت گردی کے حملے، قدرتی آفات اور عالمی وبائی مرض کے دوران نیوزی لینڈ کی قیادت کی۔ وہ قیادت کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ تمام مشکلات پر بہت آسانی سے قابو پانے میںکامیاب ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن یورپ ہی سے ایک خبر یہ بھی آرہی ہے کہ ’’فرانس میں توہین آمیزخاکے دکھانے پر نوجوان نے گستاخ کا سر قلم کردیا۔ ایک مڈل اسکول میں تاریخ کے 47 سالہ استاد سموئل پیٹی نے اپنے شاگردوں کوآزادی اظہار رائے کا سبق دیتے ہوئے طلبہ کو توہین آمیزخاکے دکھائے۔ طلبہ کے مطابق سموئل نے خاکے دکھانے سے پہلے کہا کہ میں جو کچھ دکھانے جارہا ہوں، وہ شاید مسلم طلبہ کو پسند نہ آئے لہٰذا وہ اگر چاہیں تو کلاس سے چلے جائیں۔ ایک لڑکی کے والد نے تھانے جا کر پولیس کو بھی شکایت درج کروائی۔ طلبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر احتجاج کیا اور اس دوران سموئل پیٹی اور اسکول انتظامیہ کو قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔ اسکول انتظامیہ نے ان تمام اعتراضات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اسکول کے اساتذہ سبق کی تیاری کے سلسلے میں بااختیار ہیں۔ فرانس میں ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کے نام پر یہ سب کچھ برسوں سے جاری ہے اور یورپی یونین جس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس طر ح کے فساد کرنے والے رکن ممالک کے خلاف کارروائی کرے لیکن وہ نہیں کرتی۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی اس طرح کی کارروائی کو یورپی یونین یکسر نظر انداز کرنے کی پالیسی پر تسلسل سے کام کررہی ہے اور ’’ترکی‘‘ کے خلاف قرارداد کی منظوری میں بہت تیزی سے کام کرتی ہے لیکن توہین آمیز خاکوں پر مستقل خاموش رہتی ہے۔
2005 میں ڈنمارک کے اخبار میں شائع کردہ کارٹون اور پھر 2015 میں فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو کی طرف سے اس کی دوبارہ اشاعت پر مسلمان اور ان کی تنظیمیں سڑکوں پر آئی ہیں جن کو روکنے کی کوشش وہاں کی حکومت کرتی رہی ہے۔ مغرب میں ’’اظہار رائے‘‘ کا سارا زور توہین آمیزخاکے دکھا کر مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم رائے عامہ کو بھڑکانے پر ہے۔ اس کے بر عکس ہولوکاسٹ جس پر اسرائیل میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے رکن ملکوں کے لیے باضابطہ ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ ’’ہولوکاسٹ‘‘ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنفین کو تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے۔ 2003ء میں ان قوانین میں مزید اضافہ کیا گیا۔ ان اضافی قوانین کے مطابق ’’ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پر بھی کچھ لکھنا قابل گردن زدنی جرم قرار پایا ہے‘‘۔ جن ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بھی لکھنا انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ان میں آسٹریا، ہنگری، رومانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہی ممالک یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں سب سے آگے رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 1998ء سے لے کر 2015ء کے دوران سترہ برسوں میں تقریباً اٹھارہ عالمی شہرت یافتہ ادیبوں اور مصنفین کو ’’اظہار رائے‘‘ کی آزادی کے علم برداروں کے قوانین کے تحت ’’نشان ِ عبرت‘‘ بنایا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یورپی یونین میں آزادی اظہار کے حق کے تعلق سے زیادہ دیر تک تعصب اور منافرت اور دوہرے معیار کے کمزور ستون پر چلانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میڈیا کی آزادی کے حدود کا تعین کرنا لازمی ہے۔ صحافت کو محض اسلام کی تضحیک یا مسلم مخالف جنون کو مزید ہوا دینے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے عالمی سطح پر بقائے باہمی، کشادہ ذہنی اور مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کے جذبہ کو فروغ دیا جائے۔ مگر اس کے ساتھ بڑی ذمے داری مسلمانوں پر خود عائد ہوتی ہے، جنہوں نے اسلام کے سماجی، معاشی نیز افکار و نظریات کے انقلاب کو عام کرنے کے بجائے اسلام کو مسلکوں کے خول میں بند کر رکھا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو تفرقوں سے باہر نکال کر اپنے کردار و اعمال سے ثابت کریں کہ اس کے افکار و نظریات ہی واقعی انسانیت کی معراج ہیں۔
یہ بات دنیا بھر کے غیر مسلم ملکوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے لیے ’’نبی کریمؐ‘‘ کی شخصیت ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ جن کی عزت کے لیے مسلمان جان مال عزت و آبرو سب کچھ قربان کرنے کو ہر وقت تیار ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، اس سلسلے میں تمام مسلم حکومتوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر مغربی اور دیگر ممالک کے لیے ایک سرخ لکیر کھینچنی ہوگی، جس طرح کی لکیر مغرب نے ہولوکاسٹ کی نفی کے لیے کھینچ رکھی ہے۔