چین پر آسٹریلیا میں اعلیٰ سطح کی جاسوسی کا الزام

196

کینبرا (انٹرنیشنل ڈیسک) آسٹریلیا میں جاسوسی سرد جنگ کی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق آسٹریلوی خفیہ اداروں کے سربراہ نے پارلیمان میں کہا ہے کہ آسٹریلیا کے شہریوں کی غیر ملکی طاقتوں کے ذریعے نگرانی کی جارہی اور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور خاص طور پر چین پر اس سلسلے میں کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ آسٹریلیا کی خفیہ سروسز کے اعلیٰ عہدے دار عموماً سخت خاموش رہتے ہیں، تاہم اس وقت یہ سب غیر معمولی طور پر بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھل کر بات کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی سیکورٹی انٹیلی جنس آرگنائزیشن کے چیف مائیکل بورجس نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت آسٹریلیا کے مفادات کے خلاف غیر ملکی جاسوسوں اور سازشی عناصر کی تعداد سرد جنگ کے دور میں جاسوسی کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ بورجس نے متنبہ کیا کہ آسٹریلیا میں رہایش پذیر غیر ملکی برادریوں کی غیر ملکی حکومتوں کے ایجنٹوں کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے اور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی طرف سے کرائی گئی ایک تفتیش کے مطابق چین سے جلا وطن ہو کر آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں پناہ لینے والے ایغور اقلیتی مسلمانوں کو جاسوسی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے طلبہ جو آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، ان کے والدین اور خاندان کے دیگر ارکان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ برس جمہوریت نوازوں کے مظاہروں کے بعد سے اہل خانہ کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔ آسٹریلوی حکام چینکی مداخلت کو تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔