طلال کا ملال:اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

679

طلال چودھری مسلم لیگ (ن) کے ممتاز رہنما اور سابق وزیر مملکت ہیں، رات کو مختلف ٹیلی ویژن چینلوں پر اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے اکثر خاصے چہکتے دکھائی دیتے ہیں، اور ’’شریف برادران‘‘ کی جائز، ناجائز، درست اور غلط ہر معاملے میں وکالت کا حق بخوبی ادا کرتے ہیں، بات بنانے اور نبھانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں، تاہم 23ستمبر کی صبح تین بجے جو واقعہ پیش آیا اُس میں طلال چودھری کی ایک بالکل مختلف تصویر سامنے آئی ہے۔ شاید یہ وہی فرق ہے جو رات کے پہلے پہر اور تیسرے پہر کے معاملات میں ہوا کرتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں بتائی جاتی ہے کہ 23 ستمبر کی صبح تین بجے کے قریب سابق وزیر مملکت طلال چودھری نے فیصل آباد کے عبداللہ گارڈن ٹائون سے پولیس کو 15 پر مدد کے لیے فون کیا۔ پولیس کی ٹیم ان کی مدد کے لیے روانہ ہوئی ہی تھی کہ اس علاقے میں رہائش پزیر نواز لیگ ہی کی خاتون رکن قومی اسمبلی عائشہ رجب بلوچ کا فون بھی پولیس کو موصول ہوا کہ میرے گھر کے باہر کچھ مشکوک لوگ موجود ہیں اور میں خطرہ محسوس کررہی ہوں۔ پولیس جب موقع پر پہنچی تو دیکھا کہ طلال چودھری زخمی حالت میں عائشہ رجب بلوچ کے گھر کے سامنے پڑے ہیں، ان کا کندھا ٹوٹا ہوا ہے اور دونوں بازو بھی زخمی ہیں۔ اس عرصے میں چند مسلم لیگی کارکن بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ طلال کو شدید زخمی حالت میں لاہور ڈیفنس کے نیشنل اسپتال منتقل کیا گیا۔ تاہم اس واقعے کو تمام فریق پی گئے، طلال چودھری اور اُن کے خاندان، عائشہ رجب بلوچ اور پولیس سب ہی نے چپ سادھ لی، کسی کو کانوں کان اس واقعے کی خبر نہیں ہونے دی گئی۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
تین دن بعد، 26 ستمبر کو ایک ویڈیو سماجی ذرائع ابلاغ سے ہوتی ہوئی برقی نشریاتی اداروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طلال چودھری کہہ رہے ہیں کہ انہیں تنظیم سازی کا کہہ کر یہاں بلایا گیا، ان کا فون چھینا گیا، وہ پولیس اہلکاروں کو کہہ رہے ہیں کہ میرا بازو ٹوٹا ہوا ہے، آپ کسی اعلیٰ افسر کو بلائیں، آپ سی پی او سہیل چودھری کو بتائیں کہ طلال چودھری کے ساتھ واقعہ ہوا ہے۔ میرا فون ملے گا تو سب سامنے آ جائے گا۔ اس واقعہ کے بارے میں کئی قسم کی باتیں سامنے آ رہی ہیں، ایک موقف یہ ہے کہ مبینہ طور پر طلال چودھری کو رکن قومی اسمبلی عائشہ رجب بلوچ کے بھائیوں نے اپنے گھر آمد پر تشدد کا نشانہ بنایا جب کہ طلال کے بھائی کا کہنا ہے کہ چار افراد نے رات کے وقت کینال روڈ پر طلال پر حملہ کر کے انہیں شدید زخمی کیا۔ طلال کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ واقعہ کا کسی خاتون سے کوئی تعلق نہیں۔ خاتون رکن قومی اسمبلی کے بھائی کے مطابق طلال چودھری سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں، ان سے بھائی جیسا تعلق ہے، ان پر تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ سٹی پولیس آفسر فیصل آباد کے مطابق واقعہ خاتون رکن قومی اسمبلی کے گھر کے سامنے پیش آیا تاہم ابھی تک کسی فریق نے چونکہ مقدمے کی درخواست نہیں دی اس لیے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خاں کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا ہے کہ سابق وزیر مملکت طلال چودھری کا معزز خاتون رکن قومی اسمبلی کو ہراساں کرنے کا واقعہ افسوس ناک ہے حکومت اس پر کارروائی کرے گی اور غنڈہ گردی سے خاتون کی ہر صورت حفاظت کی جائے گی۔ طلال کی یہ حرکت مریم صفدر اور پولیس ن لیگ کے لیے باعث شرم ہے اس واقعہ نے ن لیگ کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے نمایاں کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر رانا ثناء اللہ جن کا اپنا تعلق بھی فیصل آباد سے ہے، نے اس واقعہ سے متعلق ایک نجی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ میں مرحوم رجب علی بلوچ کے بیٹے کا نام سننے میں آ رہا ہے، ہم نے تشدد کے اس واقعہ کی تحقیقات پارٹی سطح پر کرانے کا فیصلہ کیا ہے، تحقیقات کے بعد ہی یہ طے ہو گا کہ معاملہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے یا نہیں۔ تنظیم سازی پر تلخ کلامی ہو سکتی ہے لیکن تشدد تک جانا قابل قبول نہیں، شہباز گل واقعہ کو غلط سمت میں لے جانا چاہتے ہیں، مریم نواز پر الزام غلط ہے یہ معاملہ شاید ان کے علم میں بھی نہ ہو، پارٹی کی طرف سے میرے ذریعے ہی یہ معاملہ دیکھا جائے گا۔ میں نے سابق وزیر سائرہ افضل تارڑ اور اکرم انصاری پر مشتمل کمیٹی بنا دی ہے جو تین روز میں رپورٹ پیش کرے گی۔
واقعہ کے بارے میں پولیس کی ایک ٹیم بھی تفتیش کر رہی ہے جس کی معلومات کے مطابق طلال اور عائشہ رجب بلوچ میں پہلے اچھے تعلقات تھے تاہم کچھ عرصہ قبل دونوں میں لڑائی ہوئی جو بڑھتی چلی گئی۔ اس ضمن میں مسلم لیگ کے قریبی صحافتی حلقوں کا موقف قدرے مختلف ہے ان کا یہ خیال ہے کہ طلال چودھری کو خفیہ قوتوں نے سبق سکھانے کی خاطر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ البتہ مسلم لیگ ان کی نائب صدر مریم نواز کی شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پریس کانفرنس میں جب اس ضمن میں سوال کیا تو انہوں نے کسی غیر مرئی طاقت پر الزام لگانے کے بجائے کہا کہ طلال کا معاملہ ذاتی نوعیت کا ہے، نہ میں نے طلال سے کچھ پوچھا نہ انہوں نے مجھے بتایا… میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفت گو کے دوران رانا ثناء اللہ نے بھی پارٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مزید ایک دو دن تک سامنے آنے کی توقع ظاہر کرتے ہوئے اس رپورٹ کے بعد ہی پارٹی کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دیا اور کہا کہ طلال چودھری کے معاملہ پر کارروائی کرنا پڑی تو ضرور کریں گے۔
یوں اس معاملہ کیں کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور نظر آ رہا ہے۔ طلال چودھری سے پولیس جب بیان لینے کے لیے نیشنل اسپتال پہنچی تو معلوم ہوا کہ وہ کچھ دیر قبل اپنے ایک دوست کی مدد سے اچانک اسپتال سے غائب ہو گئے ہیں، انہوں نے ڈاکٹروں سے اس ضمن میں اجازت لی ہے نہ ہی اسپتال کے واجبات ادا کیے ہیں۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق وہ زخمی حالت میں نیشنل اسپتال لاہور سے فرار یا غائب ہونے کے بعد اسلام آباد میں زیر علاج ہیں دوسری جانب واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث خاتون رکن قومی اسمبلی بھی فیصل آباد میں اپنا گھر چھوڑ کر اسلام آباد چلی گئی ہیں حالانکہ انہیں فیصل آباد میں پولیس کی طرف سے خصوصی سیکورٹی بھی فراہم کی جا رہی تھی۔ پھر عائشہ رجب بلوچ بھی مسلسل اس واقعہ سے متعلق کچھ بتانے سے گریزاں ہیں اور تاحال انہوں نے پولیس کو بھی اپنا بیان ریکارڈ نہیں کرایا ہے، یوں رات کے تیسرے پہر پیش آنے والا یہ پراسرار واقعہ اب تک ’’ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘ بنا ہوا ہے۔ پولیس کی رپورٹ مکمل ہو رہی ہے نہ پارٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کئی دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی نتیجے پر پہنچ سکی ہے۔ خاتون اپنا بیان ریکارڈ کرانے پر آمادہ ہے نہ ٹی وی مذاکروں میں مخالفین کی بولتی بند کرنے والا طلال چودھری اپنے ساتھ پیش آمدہ اس واقعے پر لب کشائی پر تیار ہے… آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔