اقوام ِ متحدہ جنگ اور مظالم روکنے میں ناکام

564

اقوام متحدہ کے 75برسوں کا حساب لگایا جائے تو یہ بات صاف ہے کہ یہ بڑی طاقتوں کی مفاد پرستی بروئے کار لانے میں ’’لیگ آف دی نیشنز‘‘ کی طر ح کا ادارہ بن چکا اور اسی لیے ترکی کے صدر طیب اردوان نے کہہ دیا کہ اقوام متحدہ کا اصل مقصد ’’دنیا میں جنگوں کو روکنا تھا لیکن یہ ادارہ اپنے اس مقصد میں یکسر ناکام ہو چکا ہے‘‘۔ اردوان کی یہ بات اس حد تک تو 100فی صد درست ہے کہ عالم اسلام کے تمام ہی ممالک اور مسلمانوں کے لیے اقوام متحدہ 75برسوں میں کچھ نہیں کر سکا اس کے برعکس افغانستان پر یو ایس ایس آر اور بعد میں 20سال قبل 2001ء میں امریکا کی جانب سے افغانستان پر حملے پر بھی اقوام متحدہ خاموش قرار دادوں کے سوا کچھ نہ کر سکی اور شاید کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اقوام متحدہ اگر کوشش کرتی تو ’’فلسطین اور کشمیر‘‘ میں عوام کوان کے حقوق وعدے کے مطابق مل چکے ہوتے؟ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو اپنی قراردادوں کے ذریعے جمہوری استصواب رائے کا حق دیا۔ اور بس دیا ہی دیا عملی میدان میں وہ کچھ نہیں کر سکا۔ اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ کشمیری اپنے ووٹ کی طاقت سے فیصلہ کریں گے کہ ان کا مستقبل کیا ہے، عالمی ادارے کی نگرانی میں شفاف جمہوری عمل ہونا تھا لیکن 72سال سے زائد ہوئے، اقوام متحدہ، عالمی برادری کے لیے کچھ نہیں کر سکی بلکہ اس کے برعکس مشرقی تیمور اور دیگر غیر مسلم عوام کے حقوق کے نام پر اسلامی ممالک کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا لیکن کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم اور مودی کی درندگی مقبوضہ کشمیر کی وادی سے باہر سنائی ہی نہیں دے رہیں؟
اقوام متحدہ کے 75 ویں اجلاس سے چین کے صدر ’شی جی پنگ‘ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ’’سُپر پاور‘‘ ہے یہ بات دنیا کو مان لینے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں مختلف سُپر طاقتیں کام کر ر ہی ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم نے ایک مرتبہ پھر مظلوم اور مجبور کشمیریوں کا کیس دنیا کے سامنے رکھا۔ لیکن اس پر سوائے ترکی کے اور کسی نے پاکستان کی کھل کر حمایت نہیں کی۔ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ساتھ ’’سلامتی کونسل‘‘ کے اجلاس سے اپنے خطاب میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس جن کا تعلق پرتگال سے ہے نے اپنے خطاب میں ازخود اعلان کر دیا کہ اقوام متحدہ اپنے مقاصد میں فیل ہوچکی ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ فلسطین میں لہو کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ اقوامِ عالم کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے اور نہ ہی لب کشائی کی جرأت ہے۔ اقوام متحدہ فلسطین میں آکر نجانے کیوں گونگی، بہری اور اندھی ہوجاتی ہے۔ اور نجانے کب تک رہی گی۔
2001ء میں ایک حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ جب 9/11 کی رات امریکا کے ’’ٹوئنز ٹاور‘‘ پر حملے کے فوری بعد ابھی یہ بھی نہیں معلوم ہوا تھا کہ یہ حملے کس کی کارروائی ہیں اور ان حملوں کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا تب بھی اقوام ِ متحدہ نے دو گھنٹوں کے دواران جنرل اور سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا اور افغانستان پر حملے کے لیے امریکا کی سربراہی میں ایک لشکر تیار کیا گیا۔ اس لشکر میں 50سے زائد ممالک کی افواج شامل تھیں اور دنیا میں ’’قیام امن‘‘ کا دھوم دھڑکا مچانے والی اقوام ِ متحدہ نے نہتے افغانیوں پر امریکا کو کارپیٹنگ بمباری کی اجازت دی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا، افغانستان کے بعد عراق اور اس کے بعد امریکا نے لیبیا اور شام میں انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی اور اپنے ساتھ دیگر اقوام کو بھی شامل کرتا گیا اور آخر کار اس خونیں کھیل میں روس بھی شامل ہو گیا۔ یہ سلسلہ ابھی تک اپنی پوری شیطانیت سے جاری ہے لیکن اقوام متحدہ اپنا کام کرنے سے قاصر ہے اقوام متحدہ آج بھی یہ بات امریکا سے معلوم نہیں کر سکتی کہ افغانستان میں امریکا ان طالبان سے مذاکرات کیوں کر رہا ہے جس کو وہ 9/11 کے بعد سے دہشت گرد کہتا رہا ہے۔ یہ ایسا اجلاس تھا جس میں کشمیریوں پر تاریخ کے بدترین مظالم کرنے والے ’’مودی‘‘ کو خطاب کی دعوت دی گئی لیکن مودی کے جرائم کی فہرست طویل ہے اور خوف کا یہ عالم ہے اس کے سیکڑوں کلو میٹر اسکوائر کی زمین بھارت کے ہاتھ سے نکل جانے کے باوجود چین کا نام تک نہیں لیا اور حسب ِ روایت ہر عالمی فورم پر پاکستان کو دہشت گردوں کے سہولت کار کا خطاب بھی نہیں دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے ساری دنیا میں بھارت عالمی دہشت گرد آر ایس ایس کی حکومت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
5 اپریل، 1945 سے 26 جون، 1945ء تک سان فرانسسکو، امریکا میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ یا United Nations کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر، 1945ء میں معرض وجود میں آئی۔ اقوام متحدہ یا United Nations کا نام امریکا کے سابق صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس بات کا احساس بہت شدت سے محسوس کیا گیا کہ جنگ کی روک تھام کے لیے ایک عالمی ادارہ بنایا جائے اس کے لیے انگلستان، فرانس، جرمنی، ڈنمارک ناروے اور سوئیڈن میں ایسی انجمنیں معرض وجود میں آئیں جن کا مقصد جنگ کی روک تھام کرنا تھا اس لیے ورسائی معاہدہ امن کی بنیاد پر یکم جنوری 1920ء کو ’’لیگ آف دی نیشنز‘‘ جب ختم ہوئی تو اس کے ارکان کی تعداد 60 تک پہنچ گئی۔ لیکن جب بڑی طاقتوں کی مفاد پرستی بروئے کار آئی تو ’’لیگ آف دی نیشنز‘‘ کے مقاصد کو شکست ہونے لگی۔ ’’لیگ آف دی نیشنز‘‘ کو اپنے فیصلوں کے نفاذ کا عملاً کوئی اختیار حاصل نہ تھا۔ یہی خامی اس کی تباہی کا موجب بن گئی۔ لیگ آف دی نیشنز لینا پر قبضے کے تنازعے میں پولینڈ اور لیتھونیا میں تصفیہ اور اٹلی اور یونان کے تنازعے، پیراگوئے اور بولیویا کے درمیان جنگ۔ جاپان کا منچوریا اور جرمنی کا آسٹریا اور چیکوسلواکیہ پر قبضے کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن جب روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا تو ’’لیگ آف دی نیشنز‘‘ کی اسمبلی کا اجلاس 11 دسمبر 1939ء کو بلایا گیا۔ جس میں روس کی مذمت کی گئی اور اسے رکنیت سے بھی خارج کر دیا گیا۔ یہ انجمن کی آخری کارروائی تھی۔ اس کا آخری اجلاس 18 اپریل 1946ء کو ہوا اور اس کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ ہوگیا۔ آج ایک مرتبہ پھر اقوام ِ متحدہ دنیا بھر کے مظلوم اور مجبور عوام کو ان کے حقیقی حقوق دلانے سے یکسر قاصر ہے۔ اقوام ِ متحدہ جنگوں اور انسانوں پر مظالم روکنے میں ناکام، اس لیے اس کا وجود بے معنیٰ ہو کررہ گیا ہے۔