نیوی کلب کیس، ایسا لگتا ہے ریاست کا وجود ہی نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

299

اسلام آباد(صباح نیوز+این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے راول جھیل کے کنارے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کے خلاف کیس میں ریمارکس دیے ہیںکہ ایسا لگتا ہے کہ ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں اورقانون کی عملدراری یقینی بنانے کے لیے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی۔ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر اور نیول فارمز کے خلاف کیس کی سماعت کی۔سماعت میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین علی احمد پیش ہوئے‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں آپ کو بار بار طلب کرنا بڑا ناخوشگوار ہوتا ہے لیکن معاملہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مکمل طور پر لاقانونیت ہے ‘قانون تو کہیں پر نظر ہی نہیں آتا‘ ایسا لگتا ہے کہ ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں۔بعدازاں عدالت نے پاکستان نیول فارمز کی تعمیرات روکنے کے حکم اور راول جھیل کے کنارے نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کے حکم امتناع میں 26 ستمبر تک توسیع کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین سی ڈی اے کو عدالتی حکم امتناع پر عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی ٹیم بھیج کر چیک کریں اور رپورٹ پیش کریں۔ساتھ ہی ہدایت کی کہ چیئرمین سی ڈی اے قانون کی عمل داری یقینی بنانے کا بیان حلفی جمع کرائیں اور مقدمات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کا حکم بھی دیا۔کیس کی مزید سماعت ہفتہ 26 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔علاوہ ازیں تحریک انصاف کے سینیٹر اورنگزیب اورکزئی کی طرف سے اسلام آبادکے نواحی علاقہ بنی گالا میں سرکاری اراضی پر قبضے کا انکشاف ہوا ہے ۔ سی ڈی اے اور ایم سی آئی نے سرکاری اراضی پر قبضے کی رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی ہے جس پر ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے سرکاری اراضی پر قبضے پر سینیٹر اور سی ڈی اے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی سینیٹر اورنگزیب اورکزئی نے پودے لگانے کی اجازت لے کر سرکاری اراضی پر قبضہ کرلیا، سینیٹر اورنگزیب اورکزئی نے سرکاری اراضی پر تالاب، دیواریں، سڑک اور سیڑھیاں بنائیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ عدالتی حکم کے بعد پی ٹی آئی سینیٹر سے سرکاری اراضی واگزار کرالی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست پر حکم نامہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ سینیٹر کے گھر اور سرکاری اراضی کی نشاندہی کی جائے اور اگر سینیٹر اورنگزیب اورکزئی کا گھر غیر قانونی ہے تو کارروائی کریں۔دوسری جانب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جرائم اور زمینوں پر قبضوں کے بڑھتے ہوئے کیسز کی سماعت کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا ۔عدالت نے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو21ستمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے 5صفحات پر مشتمل حکم نامے میں قراردیا ہے کہ اسلام آباد میں زمینوں پر قبضوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور حیران کن طور پر وز را اور حکومتی ادارے ریئل اسٹیٹ کا غیرقانونی کاروبار کر رہے ہیں،اداروں اور وزارتوں کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہونا مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ اداروں اور وزارتوں میں ایسے معاملات نے سنجیدہ سوال کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ رپورٹس بتا رہی ہیں کہ سسٹم کس طرح کرپشن زدہ ہو چکا اور تباہی کے دہانے پر ہے،اسلام آباد کی طاقتور ایلیٹ قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی براہ راست ذمے دار ہے، یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ریاست عام شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی۔حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ مبینہ قانون توڑنے میں لگے ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اسلام آباد میں امن و امان کی خوفناک صورتحال ناقابل برداشت ہے،عام شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے،شہریوں کا نظام انصاف پر سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے، امن و امان کی یہ حالت اچانک نہیں بلکہ دہائیوں سے منتخب اور غیرمنتخب حکومتوں کی طرزحکمرانی کی وجہ سے ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے رپورٹ میں ملزمان کی تفتیش اور پراسیکیوشن میں خامیوں کا اعتراف کیا۔عدالت نے قراردیا کہ چیف کمشنر کو اسلام آباد میں پراسیکیوشن برانچ قائم کرنے کا بار بار حکم دیا لیکن عملدرآمد نہ ہوسکا ۔ عدالت نے وزیراعظم کے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو21 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شہزاد اکبر بتائیں کہ کیا انہوں نے امن و امان اور عام شہریوں کے تحفظ کیلیے وزیر اعظم کو کوئی ایڈوائس دی؟ ہائیکورٹ نے چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کوبھی ذاتی حیثیت طلب کرلیا اور وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل اور صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کو معاونت کے لیے طلب کیا ہے۔