تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی

626

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے کہا ہے کہ کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کی تعمیل میں ناکامی پر ملک کے 22 تعلیمی ادارے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بند کردیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان تعلیمی اداروں میں سے 16 کا تعلق خیبر پختون خوا، ایک کا اسلام آباد اور پانچ کا آزاد جموں و کشمیر سے ہے۔ یاد رہے کہ کورونا کے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پھیلنے کے بعد ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے مارچ کے وسط میں عین اس وقت بند کر دیے گئے تھے جب چاروں صوبوں میں میٹرک کا سالانہ امتحان شروع ہوگیا تھا اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحان کے شروع ہونے میں محض ایک ماہ کا عرصہ رہ گیا تھا جس نے ملک کے پورے تعلیمی نظام کو مفلوج کر دیا تھا۔ اب جب چھ ماہ کے وقفے کے بعد ملک کے تعلیمی ادارے 15ستمبر سے بتدریج دوبارہ کھل گئے ہیں تو وہ خدشات بدستور موجود ہیں جن کا اظہار تعلیمی ادارے کھولتے وقت مختلف حلقوں کی جانب سے کیا جارہا تھا۔ حکومتی فیصلے کے تحت پہلے مرحلے کے دوران نویں اور دسویں جماعتوں کے علاوہ کالجز اور یونیورسٹیاں 15ستمبر سے کھول دی گئی ہیں جب کہ 23 ستمبر سے مڈل تک اسکول اور 30ستمبر سے پرائمری اسکول کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نجی تعلیمی اداروں نے تو بھر پور خیرمقدم کیا ہے البتہ والدین ایک جانب تعلیمی ادارے کھلنے پر خوش ہے تو دوسری جانب انہیں اپنے بچوں کی صحت کی فکر بھی لاحق ہے۔
یہ امر لائق تحسین ہے کہ این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں والدین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو طے شدہ ایس او پیز کے مطابق تعلیمی اداروں میں بھیجیں جس میں ماسک پہننا، سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا اور ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال شامل ہے۔ والدین کو کہا گیا ہے کہ کھانسی اور بخار کی علامات کی صورت میں وہ اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں۔ اگر بچوں میں کوویڈ کی واضح علامات ظاہر ہوں تو انہیں اپنے بچوں کا ٹیسٹ کرواکر رپورٹ مثبت آنے کی صورت میں تعلیمی ادارے کو آگاہ کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ ٹرانسپورٹرز کو بھی اسکولوں میں جاتے ہوئے گاڑیوں میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اب تک کی سامنے آنے والی اطلاعات میں بڑے اور درمیانے درجے کے نجی تعلیمی اداروں میں تو طے شدہ ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جارہا ہے لیکن اس سلسلے میں اصل چیلنج جہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں سامنے آنے کا امکان ہے وہاں اگر حکومتی اداروں نے تعلیمی اداروں پر مسلسل اور سخت چیک نہ رکھا تو فیسیں بٹورنے کے لالچ میں ایس او پیز کی دھجیاں اڑائے جانے کے خدشات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا، جس کے بعد کسی بھی بڑے ناخوشگوار واقعے کو کنٹرول کرنا شاید کسی کے بس میں بھی نہیں ہوگا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ خیبر پختون خوا ڈائریکٹریٹ آف کیریکلم اینڈ ٹیچرز ٹریننگ نے تعلیمی اداروں کی چھ ماہ تک بندش کی وجہ سے طلبہ وطالبات کے ہونے والے تعلیمی نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری اور نجی اسکولوں کے نصاب پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈی سی ٹی ای ڈائریکٹریٹ کے مطابق موجودہ تعلیمی سال کے باقی چھ ماہ میں طلبہ کو زیادہ سے زیادہ کورس پڑھانے کے لیے طے شدہ نصاب کو مختصر کیا گیا ہے گو کہ اس اختصار کی تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہیں لیکن توقع ہے کہ نصاب کو بناتے ہوئے محض اختصار کے پہلو کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہوگا بلکہ طلبہ وطالبات کی موجودہ تعلیمی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی مستقبل کی پیشہ ورانہ تعلیم میں درکار ضروریات کو بھی لازماً اہمیت دی گئی ہوگی۔ ڈی سی ٹی ای ڈائریکٹریٹ کے نئے تعلیمی کیلنڈر میں اساتذہ کو 2021 کے میٹرک کے امتحان کے حوالے سے بھی نظر ثانی شدہ نصاب اور رہنما اصول فراہم کیے گئے ہیں۔ ڈی سی ٹی ای ڈائریکٹریٹ کے مطابق یہ نیا نصاب اساتذہ کو مختلف مضامین کی تدریس کے ضمن میں ایک راہنما کا کردار ادا کرے گا جس سے اگر ایک طرف ضائع شدہ تدریسی وقت کو پورا کیا جاسکے گا تو دوسری جانب اس سے طلبہ وطالبات کو مختصر وقت میں کورسز بھی مکمل کروائے جا سکیں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مختصر نصاب انٹر میڈیٹ اور ثانوی تعلیمی بورڈز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ متعلقہ اداروں کے لیے یہ سوال ایک بڑا چیلنج تھا کہ تعلیمی سال کے باقی ماندہ چھ ماہ میں کیا پڑھانا ہے اس کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ یقینا اہم اور پیچیدہ تھا جس کا اختیار اساتذہ یا متعلقہ تعلیمی اداروں کو نہیں دیا جاسکتا تھا لہٰذا اس ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور ہر لحاظ سے احتیاط کی ضرورت تھی۔ امید ہے کہ زیر بحث مختصر تعلیمی کیلنڈر نہ صرف ساتذہ کرام کواس قابل بنائے گا کہ وہ دستیاب وقت کا موثر اور بھرپور استعمال کرتے ہوئے کورس کے تمام ضروری مضامین کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں بلکہ اس سے اساتذہ کرام کو منظم رہنمائی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ وطالبات کو اگلے سال کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات کی موثر تیاری اور ان امتحانات میں اچھے نتائج کے حصول میں بھی خاطر خواہ مدد مل سکے گی۔ گو بعض تعلیمی اداروں نے وقت کے ضیاع کا سدباب آن لائن کلاسوں کے ذریعے کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی لیکن اولاً چونکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے درکار وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ثانیاً چونکہ کلاس روم اور آن لائن طریقہ تدریس میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لیے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کے لیے آن لائن ٹیچنگ پر انحصار فی الحال ممکن نہیں ہے