فرقہ واریت اور ہماری ذمے داری

632

محرم الحرام کی آمد سے قبل ’’تحفظ بنیاد اسلام بل‘‘ کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں راقم الحروف نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بعض عناصر جس قسم کے فرقہ وارانہ زہریلے مواد کو آزادانہ پھیلارہے ہیں وہ انتہائی اشتعال انگیز ہے اور اس کے نتائج سے ہم بے خبر ہیں اور تقریباً اسی خدشہ کا اظہار انہی دنوں ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن صاحب نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی ادارے اپنا فریضہ ادا کریں اور اس صورت حال کا بروقت نوٹس لیں لیکن ہمارے ہاں ماضی کے تجربات سے یہ بات عیاں رہی ہے کہ عموماً حکومتی ادارے حادثے کے بعد جاگتے ہیں اور رسمی کارروائی و بیانات سے معاملے کو ٹھنڈا کرکے سو جاتے ہیں۔ مستقل بنیادوں پر مسئلہ کو اہمیت نہیں دیتے، رسمی کارروائی کے تحت اگرچہ حکومتی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے اجلاس ہوتے ہیں، دینی جماعتوں و علمائِ کرام سے رابطے ہوتے ہیں لیکن ان اجلاسوں میں ہونے والے فیصلے یا ضابطۂ اخلاق یا متفقہ نکات طے بھی ہوجاتے ہیں تو ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس سے فرقہ وارانہ مسائل کے سدباب کے لیے اعتدال پسند علما و دینی جماعتوں کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جو حکومتی اداروں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔ کراچی میں 10 محرم الحرام کا حالیہ سانحہ بھی ہمارے حکومتی اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہے اگر یہ ادارے سوشل میڈیا پر پھیلانے والے شرانگیز مواد پر نظر رکھتے اور بروقت نوٹس لے کر اقدامات کرتے تو ایسے سانحے پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ اس سانحے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے اگرچہ جرأت مندانہ بیان دیا اور کہا کہ ’’توہین صحابہؓ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے شرپسندوں کو معاف نہیں کریں گے‘‘۔ (جسارت یکم ستمبر 2020ء) ماضی کی روشنی میں اس قسم کے بیانات محض رسمی ثابت ہوئے اس قسم کے واقعات میں استعمار و اسلام دشمن کی سازشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ انہی دنوں سویڈن میں
قرآن پاک کی بے حرمتی کا سانحہ رونما ہوا جہاں مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور کراچی واقعے سے پہلے اسلام آباد میں بھی فرقہ وارانہ شرپسندی کا واقعہ ہوا۔ لہٰذا ہمیں تواتر کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں عالمی و غیر ملکی سازش سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ حکومتی اداروں کو ان واقعات کے پسِ پشت گہری سازشوں کے حوالے سے بھی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ حکومت کو ملک میں فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات کے سدباب کے لیے ان کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔ ماضی کے ان تمام واقعات کی روشنی میں قوانین و ضابطوں کو ازسرنو مرتب کرنا چاہیے۔ قوانین جو موجود ہیں لیکن آخر کیوں ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، ان پر عمل درآمد نہ کرنے کے ذمے دار عناصر کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ حکومت کو اس ضمن میں مزید سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، علما و دینی جماعتوں کی تجاویز و ضابطہ اخلاق اور نیشنل ایکشن پروگرام (پیغام پاکستان) کی روشنی میں علما و دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مذہبی جلوسوں، اجتماعات و سوشل میڈیا کو فرقہ وارانہ منافر کا ذریعہ بننے سے روکنے کے لیے ٹھوس قوانین بنانے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرانا چاہیے۔ علما و دینی جماعتوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ شرپسندی پھیلانے والے عناصر پر کڑی نظر رکھیں۔ علما و دینی جماعتوں کے اکابرین جید علما کرام نے فرقہ واریت کے سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ 1951ء میں تمام مکاتب فکر کے علما نے 22 متفقہ نکات پر اتفاق کیا تھا ان میں شیعہ، سنی، اہلحدیث کے تمام اکابر علما شامل تھے۔ فرقہ واریت کے سدباب کے لیے 22 نکات آج بھی ہماری رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ان کی روشنی میں حکومت و علما مل کر فرقہ واریت کے سدباب کے لیے آگے آئیں اور دینی جماعتوں کو اپنے اندر ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو خود ان کی اور ان کے مکتبہ فکر کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر ایک اہم اسلامی ملک کی شناخت کی حیثیت سے آج بھی دیگر اسلامی ممالک کے لیے مضبوط قلعہ ہے، اس کی حفاظت و سالمیت ہم سب پر فرض ہے، دشمن کی سازشوں سے اسے محفوظ رکھنے کے لیے ضرورت ہے کہ یہاں قومی اتحاد و اتفاق و فرقہ وارانہ ہم آہنگی و یگانگت کو مضبوط کیا جائے۔