میاں نواز شریف کی برطانیہ سے واپسی آسان نہیں

625

پاکستان میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے ایک خط لکھنے پر برطانوی حکومت میاں نواز شریف کو فوراً پاکستان کے حوالے کر دے گی وہ محض خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ ایک تو پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مقدمات میں مطلوب ملزمان کی حوالگی کا کوئی سمجھوتا نہیں جس کی وجہ سے میاں صاحب کی واپسی آسان نہیں ہوگی۔ دوم پاکستان میں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں میاں صاحب کی واپسی آسان ہوگی انہیں برطانیہ کی روایات کے بارے میں علم نہیں۔ برطانیہ نے کبھی کسی غیر ملکی سیاسی رہنما یا منحرف کو اس کے ملک کے حوالے نہیں کیا ہے۔ پچھلے سال برطانیہ نے سات ہزار افراد کو ملک بدر کیا ہے مگر ان میں زیادہ تر وہ افراد شامل تھے جو برطانیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔ ان میں کوئی ایسا ممتاز شخص نہیں تھا جس پر کرپشن کا یا کوئی اور سنگین الزام تھا۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کسی ممتاز شخص یا سیاسی منحرف کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو عدالتیں سد راہ بنتی ہیں۔ گزشتہ جولائی میں ایک غیر ملکی جرائم کے گروہ کے سربراہ کو، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، اسے صرف A کا نام دیا گیا برطانوی حکومت نے قومی سلامتی کی بنیاد پر ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اپیل عدالت نے اس کی ملک بدری کا حکم منسوخ کردیا کیونکہ اس کے مقدمہ میں قانون کی مکمل پاس داری نہیں کی گئی تھی۔
اکتوبر 1998 میں چلی کے فوجی آمر جنرل پنوشے کی لندن میں گرفتاری اور ان کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے مقدمہ کے لیے اسپین بھیجنے پر جو ہنگامہ برپا ہوا تھا وہ اب بھی لوگوں کو یاد ہے۔ جنرل پنوشے 1973 سے 1990 تک چلی کے نہایت ظالم فوجی آمر رہے تھے اس دوران ان پر تین ہزار سے زیادہ شہریوں کے قتل اور ملک کے قومی خزانہ سے لاکھوں ڈالر غبن کرنے کا الزام تھا۔ اکتوبر 1998میں جنرل پنوشے جب لندن کے دورہ پر تھے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام میں اسپین کے جج کے وارنٹ پر گرفتار کر لیے گئے تھے۔ ان کے خلاف پہلی باری کسی ملک کے سربراہ کے خلاف، یونیورسل جیورس ڈکشن کے تحت گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس زمانے میں برطانیہ کی سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی مہم کے نتیجے میں وزیر داخلہ جیک اسٹرا نے چلی کے فوجی آمر کو اس بنا پر مقدمہ کے لیے اسپین بھیجنے کی درخواست مسترد کر دی تھی کہ ان کی صحت اس قابل نہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکے۔ جیک اسٹرا نے دار الامرا کے اس فیصلہ کو بھی مسترد کردیا کہ فوجی آمر کو مقدمہ کے لیے اسپین بھیجا جائے۔ جنرل پنوشے کی گرفتاری کے اس ہنگامہ کے تناظر میں میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی آسان نہیں۔ میاں صاحب کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان کی درخواست کو بلاشبہ برطانیہ کی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا، اس صورت میں یہ معاملہ خود حکومت پاکستان کے لیے وبال جان بن جائے گا اور اس بارے میں پنڈورا بکس کھل جائے گا اور یہ سوالات اٹھیں گے کہ میاں صاحب کو کس کے حکم پر اور آیا کسی شرط پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
گزشتہ چار سال کے اعداد وشمار حیرت انگیز ہیں۔ کُل 2152 غیر ملکی افراد جو جنسی جرائم سے لے کر منشیات کے جرائم میں سزا کاٹ رہے تھے ان کی سزائوں کے خاتمے کے بعد ان سب کو رہا کردیا گیا ہے اور کسی کو ملک بدر نہیں کیا گیا۔ گزشتہ اپریل میں برطانیہ کی عدالت عظمیٰ نے یہ اہم فیصلہ دیا تھا کہ حکومت کسی ایسے غیر ملکی مجرم کو ملک بدر نہیں کر سکتی جس کو اس کے وطن میں مناسب علاج معالجہ کی سہولت حاصل نہیں۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ بلاشبہ میاں نواز شریف کے حق میں جائے گا اور یہ سوالات اٹھیں گے کہ آیا انہیں پاکستان میں وہ سہولت حاصل ہے جس کے تحت ان کا علاج ہوسکے، ان کو علاج کے لیے برطانیہ بھیجنے کی اجازت سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں ان کا معقول علاج ممکن نہیں۔ ان تمام سوالات اور برطانیہ کی روایات کے پیش نظر یہ صاف نظر آتا ہے کہ میاں صاحب کو پاکستان واپس لانے کے لیے حکومت پاکستان کی کوشش کامیاب ثابت نہیں ہوگی۔