محبت کرنے والا ساتھی

608

ہمارے اور مرحوم اطہر ہاشمی صاحب کے ساتھ تعلقات کی کوئی سال دو سال کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ کم و بیش نصف صدی پر محیط ایک داستان ہے۔ یہ 43برسوں پر مشتمل خاموش داستان ہے ستمبر 1977کو جسارت کے شعبہ حسابات میں میرا تقرر ہوا، اکتوبر 1977میں اطہر ہاشمی کا شعبہ ادارت میں سینئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے تقرر ہوا، ایور ریڈی چیمبر کی تیسری منزل پر جسارت کا آفس تھا جب لفٹ سے داخل ہوں تو پہلے سٹی سیکشن تھا اس کے بعد شعبہ اشتہارات پھر شعبہ سرکولیشن اور اس کے بعد ہمارا شعبہ حسابات تھا ہمارے برابر میں شعبہ انتظامیہ کا کمرہ تھا افضل صاحب جو شعبہ انتظامیہ کے انچارج تھے انہیں ایک کیبن الگ سے دے دیا گیا اور ان کی جگہ شعبہ علم ادب کو دے دی گئی جس میں خواتین صفحہ کی نگران کے علاوہ بچوں کا صفحہ بھی بنایا جاتا تھا یہاں پر اطہر ہاشمی بیٹھتے تھے ان سے روزآنہ ملاقات نہ بھی ہو لیکن علیک سلیک ضرور ہو جاتی تھی وہ ہاشمی صاحب کی نوجوانی کا زمانہ تھا، ہاشمی صاحب بنیادی طور پر انتہائی نفیس انسان تھے ان کی گفتگو اور لباس میں نفاست غالب تھی ہم نے اس زمانے میں تنظیم نوجوانان لیاقت آباد بنائی تھی اس کے تحت مختلف پروگرام ہوتے تھے ساتھیوں نے کہا کہ تنظیم کا تعارف ہونا چاہیے میں نے ہاشمی صاحب سے درخواست کی کہ ہماری تنظیم کا ایک تعارف لکھ دیں ہاشمی صاحب نے بہت اچھا تعارف لکھا جسے ہم نے برسوں ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا۔
1990 میں جسارت میں مالی بحران آیا تو ہمیں جسارت سے مستعفی ہونا پڑا اور شاید اسی دور میں ہاشمی صاحب اردو نیوز جدہ میں چلے گئے اس طرح برسوں ہمارے درمیان رابطہ منقطع رہا اور جب اردو نیوز سے سلسلہ ختم ہوا اور واپس آکر انہوں نے کچھ عرصے بعد جسارت دوبارہ جوائن کیا تو ہمارا رابطہ پھر بحال ہو گیا میں اپنے کاروبار میں مصروف ہوگیا لیکن جسارت سے رابطہ قائم رہا صبح میں مرحوم ابراہیم فہمی اور شاہد میاں سے ملنے جاتا یہی ہمارے پرانے ساتھی تھے اور شام کو اطہر ہاشمی سے ملاقات کرنے جاتا کچھ دیر ان کے ساتھ گپ شپ رہتی جسارت میں کالم لکھنے کا سلسلہ تو بہت پرانا ہے پھر کچھ عرصے کے لیے جب افتخار صاحب جسارت کے ذمے دار بنائے گئے تو میں نے دوبارہ جسارت کا شعبہ ادارت جوائن کرلیا 2003 سے 2006 تک جسارت میں رہے اس کے بعد میرے کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہونے لگے 2007 تک کم و بیش 50کالم شائع ہو چکے ہوں گے۔ اس درمیان میں میرا ہاشمی صاحب سے رابطہ قائم رہا وہ کبھی کبھی جنگ میں میرے کالم پر اپنی تنقیدی رائے بھی دیتے تھے۔ پھر جب جسارت میں میرے کالم شائع ہونے لگے تو انہوں نے براہ راست میرے کالم دیکھنے شروع کیے ان کا کہنا تھا کہ اپنی تحریر کی ایک کاپی مجھے الگ سے دیا کریں پھر جب میں کبھی ان سے ملنے جاتا تو وہ میرے کالم کی کئی غلطیاں نکال کر رکھتے اور اس کی اصلاح فرماتے۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ہاشمی صاحب مجھ سے خصوصی محبت رکھتے تھے اور میں شام کو ان کے ساتھ گھنٹوں دفتر میں گزارتا تھا ادارہ نور حق میں یا کسی اور جگہ صحافیوں کا کوئی اجلاس ہوتا میں جیسے ہی اجلاس میں داخل ہوتا ایک ہاتھ بلند ہوتا ہوا نظر آتا وہ ہاشمی صاحب ہوتے جو مجھے اپنے پاس قریب کی خالی نشست پر بٹھاتے یا کسی اجلاس میں میں پہلے سے موجود ہوتا اور ہاشمی صاحب بعد میں آتے تو میں ان کو اپنے پاس بلا لیتا یا وہ جہاں بیٹھتے ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتا، قاضی حسین احمد کی وفات پر میرا مضمون اداریے کے برابر میں نمایاں جگہ پر لگا تو اس پر میں نے کہا کہ یہ آپ کی محبت ہے انہوں نے کہا یہ مضمون کسی محبت کے نتیجے میں یہاں نہیں لگا بلکہ وہ مضمون ہی ایسا تھا کہ اسے اسی جگہ پر لگنا چاہیے تھا میرے اس مضمون کو وہ زیادہ پسند کرتے تھے جو پرانے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا۔ سنڈے میگزین میں میرا ایک مضمون سید ماجد علی درباری اور بھنڈاری چھولے والا شائع ہوا تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد کیا تھا میں نے جب ہاشمی صاحب سے ان اعتراضات کا ذکر کیا تو انہوں نے ان اعتراضات کو مسترد کردیا کہ اس مضمون میں اسکول کی دو شخصیات کا ذکر ہے ایک اسکول کے ہیڈماسٹر اور دوسر ایک چھولے والا جو ایک خاص ڈسپلن کی پابندی کرتے تھے۔ ہاشمی صاحب بنیادی طور پر ایک پر مزاح شخصیت تھے ہم نے جسارت میں ایک ڈنر کلب بنایا ہوا تھا جس کے تحت ماہ یا دو ماہ میں کسی ساتھی گھر کھانے پر نشست ہوتی اس کے بھی کچھ پروگراموں میں ہاشمی صاحب شریک ہوئے کھانے سے زیادہ جو آپس کی بات چیت اور ہنسی مزاق ہوتا وہ محفل کی جان ہوتا۔ کبھی کبھی یہ پروگرام فیملی کے ساتھ بھی ہوتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک پروگرام میں ہاشمی صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ جسارت میں اس زمانے میں ایک خاندان جیسا ماحول تھا ہاشمی صاحب کے طنزیہ جملے بڑے زبردست ہوتے جس سے لوگ محظوظ ہوتے ایک محفل میں ایک صاحب اپنے پیروں پر ہاتھ پھیر رہے تھے ایک دوسرے ساتھی نے ٹوکا یہ آپ کیا کررہے ہیں اس سے پہلے کہ وہ کچھ جواب دیتے ہاشمی صاحب بول پڑے رہنے دیں عادت سے مجبور ہیں ہم لوگوں کے قہقہے چھوٹ گئے، جن صاحب کے بارے میں یہ بات کہی گئی اور جس پس منظر میں کہی گئی شرکاء محفل پہلے سے واقف تھے اس لیے اس جملے کا صحیح لطف شرکاء محفل ہی اٹھا سکتے تھے۔
مرحوم حاجی یونس میرے کالم بہت پسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جاوید سیدھی سیدھی بات لکھتا ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب میرے کالم کا کوئی نام نہیں تھا تو اس وقت میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے کالم کا نام سیدھی بات رکھ دیا جائے اور پھر اس نام سے کالم شائع ہورہے ہیں ایک موقع پر اطہر ہاشمی صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے اپنے کالم کا عنوان مجھ سے مشورہ کیے بغیر رکھ لیا میں نے آپ کے کالم کا عنوان۔ در دل رکھنے سوچا تھا پھر شاید وضاحت بھی کی کہ درد دل نہیں بلکہ در دل اس وقت مجھے تھوڑا سا افسوس بھی ہوا پھر میں نے کہا چلیں اپنے کالموں پر کوئی کتاب چھاپنے کا موقع ملا تو اس کا نام در دل رکھ دیں گے لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے اور الیاس بھائی سے درخواست بھی کی ہے کہ ہاشمی صاحب کی خواہش کے مطابق میرے کالم کا عنوان سیدھی بات سے تبدیل کر کے در دل رکھ دیا جائے اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جب بھی یہ نام سامنے آئے گا ہاشمی صاحب یاد آئیں گے اور پھر ازخود ان کے لیے دل سے مغفرت کی دعا بھی نکلے گی۔
آخر میں چلتے چلتے ہاشمی کے ایک تاریخی جملے پر بات ہوجائے، صلاح الدین صاحب کے گھر ایک نشست تھی جس میں محمود اعظم فاروقی، اطہر ہاشمی، فیض الرحمن اور دیگر احباب شریک تھے وہاں پر یہ موضوع زیر بحث آیا کہ فیض صاحب کی گفتگو میں ایک نازیبا لفظ جو عرف عام میں گالی ہے وہ تکیہ کلام کے طور پر منہ سے نکلتا ہے وہ کہنے لگے ایک دفعہ میاں طفیل صاحب کے سامنے بھی میرے منہ سے اس طرح کا جملہ نکل گیا میاں صاحب مجھے گھور کر دیکھنے لگے لیکن وہ جملہ تو نکل چکا تھا اس وقت ہاشمی صاحب نے کہا کہ اسی مجبوری کی وجہ سے تو فیض صاحب تلاوت قرآن نہیں کرپاتے۔