پاکستان سعودی عرب کشیدگی کا خاتمہ؟

5089

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی بھڑکائی ہوئی کشیدگی کے خاتمے کا وقت قریب ہے، جنرل باجوہ سے سعودی سفیر کی ملاقات سے کشیدگی کے خاتمہ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر سے ہر طبقے کے علماء نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی ادارے بھی سامنے آئے اور مسائل کے حل کے لیے بہت تیز رفتاری سے کام کیا گیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان سعودی عرب کشیدگی کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ بھی پتا لگایا جارہا ہے کہ کن مقاصد کے تحت پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو خراب کرنے کوشش کی جارہی تھی اور اس میں کون کون ملوث ہے۔ تعلقات میں بہتری کے لیے وزیر اعظم کا دورۂ سعودی عرب ضروری ہوگیا ہے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جس عجلت اور جلد بازی میں پاکستان سعودی عرب کشیدگی کا اعلان کیا اس سے پتا چل رہا تھا کہ ’’وہ کسی سازش کا شکار ہوئے ہیں یا از خود اس میں شامل ہیں‘‘۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو شاید معلوم ہو کہ پاکستان کا اس وقت ’’اسلامی ممالک‘‘ کے درمیان اتحاد کرانے کا کام کر رہا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ 21اگست 1969ء کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردعمل کے بعد 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اور جنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی دنیا بھر کے 1.6 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا۔
آج دنیا بھر میں کشمیر ایک انگاروں بھرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کشمیریوں کو ایک سال سے موودی حکومت مولی گاجر کی طرح کاٹ رہی ہے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر عرب اسلامی ممالک امریکا اوربھارت سے دوستی کے لیے تڑپ جارہے ہیں۔ امریکا کی وجہ سے عرب دنیا میں ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں ایک طویل عرصے سے لبنان میں خانہ جنگی ہے جہاں عوام موت، بھوک، افلاس، غربت کا شکار ہیں لیکن مجال ہے کہ او آئی سی اس جنگی ماحول کو ختم کر کے یہاں امن قائم کرنے میں اپنا کر دار ادا کرے۔ ’’آیا صوفیہ‘‘ میں 86سال بعد نماز جمعہ ہو یا پاکستان میں ’’ارتغرل ڈرامے‘‘ کی نمائش سعودی عرب کو پر یشانی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کا آغاز اس وقت ہوا جب 9فروری 2020ء کو جدہ میں اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تحت کونسل برائے وزرائے خارجہ (سی ایف ایم) کا 47 واں اجلاس شروع ہو ا یہ اجلاس 11 فروری تک جاری رہا پاکستان چاہتا تھا کہ اس اجلاس میں کشمیر کو ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔ سعودی عرب کی کشمیر پر ہچکچاہٹ سے پاکستان مایوس ہو ا۔ اجلاس میں امریکا اور بھارت کی مسلمان ملکوں سے زیادہ دلچسپی اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کی کشمیر پر سی ایف ایم کا اجلاس بلانے کی درخواست قبول نہیں کی تھی۔ اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے ملائیشیا کا دورہ کیا۔ اس دو روزہ دورے میں ایک ملائشین تِھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر یک زبان نہیں ہے۔ ’ہم بٹے ہوئے ہیں۔ ہم ابھی تک کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہیں بلا سکے‘۔ یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں کویڈ 19- پھیل رہا تھا اور کشمیریوں پر پر لاک ڈاؤن، کرفیو، شہادتوں کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری تھا۔ اگست 2019 میں بھارت نے جب اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تو اْس کے ساتھ ساتھ کشمیر پر دو طرفہ مذاکرات کا راستہ بھی بند ہوگیا۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ تیل خریدنے کے علاوہ سعودی عرب پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے پاکستان اِس وقت معاشی کشمکش میں ہے اور معاشی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ سعودی عرب کو ناراض کرسکے۔ پاکستان کے 40 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار سعودی عرب اور متحدہ عر ب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں سے نتھی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 10 تا 12ارب ڈالرز کا زرِ مبادلہ سالانہ پاکستان کو موصول ہو رہا ہے۔ اِس حقیقت کو سب جانتے ہیں کہ ’’امریکا اور چین کی دوستی‘‘ پاکستان نے کرائی ہے لیکن اس بات کا علم بہت کم لوگوں کو ہے کہ سعودی عرب اور چین کی دوستی بھی پاکستان ہی نے کرائی ہے۔ 1990ء سے قبل سعودی عرب امریکا کی محبت میں چین کے متنازع علاقے تائیوان کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کر رہا تھا۔ چین اور سعودی عرب کے درمیان اس کشیدہ صورتحال کے باوجود جب امریکا نے سعودی عرب کو 1985ء میں اسلحہ کی ترسیل بند کر دی تو پاکستان نے سعودی عرب کو چین سے ’’CSS2 ایسٹ ونڈ‘‘ میزائل کی خریداری میں بھرپور تعاون فراہم کیا جس کا علم امریکی سی آئی اے کو اس وقت ہوا جب فنانشل پوسٹ نے 1988ء میں ایک رپورٹ شائع کی لیکن امریکا کو اس وقت بھی درست علم نہ ہو سکا۔ امریکیوں کو 2014ء تک ان میزائل کی بھنک تک نہیں مل سکی کہ وہ کہاں ہیں۔ 2014ء میں سعودی عرب میں فوجی پریڈ کے دوران ان میزائل کی نمائش کی گئی۔ اس تقریب کے مہمان ِ خصوصی اُس وقت کے پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے۔
دسمبر 2019 میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ملائیشین وزیر اعظم مہاتر محمد کی سربراہی میں ’کوالالمپور سمٹ‘ ہوئی جس میں پاکستان نے شرکت نہیں کی۔ اس اجلاس میں پاکستان کی عدم شرکت کو سعودی عرب کے دباؤ کے تناظر میں دیکھا گیا تھا۔ عمران خان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ یہ ایک غلط فہمی تھی کیونکہ کانفرنس کے انعقاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد امّہ کی تقسیم نہیں تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی، ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتر محمد، اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے کوالالمپور سربراہ اجلاس کا انعقاد کیا۔ پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ سعودی عرب یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کو بْری معیشت سے نمٹنے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں جس کے بدلے میں پاکستان اپنی خارجہ پالیسی پر خاموش ہوجاتا ہے۔ خاموش نہ بھی ہونا چاہے تو مجبور کردیا جاتا ہے۔ کشمیر پر بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باوجود تمام خلیجی ممالک بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے نتیجے میں کشمیر میں ہونے والی خونریزی دبا دی جاتی ہے۔
3فروری 2020ء کو ایران کی وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ سعودی عرب نے او آئی سی کی ایک میٹنگ میں ایرانی مندوبین کو شرکت سے روک دیا ہے۔ 9فروری 2020ء کی میٹنگ میں مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن کے منصوبے ’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ پر غور کیا گیا جس میں چند اسلا می ممالک کو شریک کیا گیا جس میں زیادہ تر عرب اسلامی ممالک شامل تھے۔
ڈیل آف دی سنیچری کا مقصد گریٹر اسرئیل کا قیام اور فلسطین کی تباہی تھا اور سعودی عر ب اس پر دامے درمے سخنے تیار تھا یہ اور بہت سے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ او آئی سی کبھی بھی مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچی۔ 1980ء میں افغانستان پر حملہ دوبارہ 2001ء میں 9/11 کے بعد امریکا کی افغانستان پر چڑھائی اور مسلمانوں پر کارپیٹنگ بمباری، قتل عام، صدام حُسین کا کویت پر حملہ اور اس کے جواب میں امریکا کا عراق پر قبضہ، 1990 کی دہائی میں بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام اور 72برسوں سے فلسطین اور 5اگست 2019ء سے کشمیریوں پر ہونے والے تاریخ کے بدترین مظالم، اور بھارت میں مسلمانوں کے امتیازی قوانین کا نفاذ ہو۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں جب، جو، جس جگہ چاہے مسلمانوں پرظلم کرتا رہے اس کا او آئی سی سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کے تمام مسائل کو حل کرنے میں او آئی سی یکسر ناکام رہا۔
اب ایک طبقہ یہ بھی سوال بھی اُٹھا رہا ہے کہ ’او آئی سی کو چھوڑ کر پاکستان کیا حاصل کرلے گا؟ اْلٹا ہم مزید تنہائی کا شکار ہوجائیں گے اور بھارت اس سے فائدہ اُٹھائے گا۔ اس وقت او آئی سی کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کشمیر کے معاملے پر جدوجہد کرنی چاہیے‘۔ پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے یا نہ دے، سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جبکہ پاکستان کو کشمیر اور ملک کی معیشت سے منسلک اقدام سوچ کر اٹھانے ہوں گے۔ اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان او آئی سی کو چھوڑ نہیں رہا ہے اس کے برعکس اس کو فعال کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ کوشش وہ مسلمان ملکوں ’’ترکی، ایران اور ملائیشیا‘‘ اور دیگر اہم اسلامی ملکوں کے ساتھ مل کر کر رہا ہے۔
اس بات میں قطعی کوئی دو رائے نہیں ہے او آئی سی اب اُوہ آئی سی بن چکی ہے۔ جس میں ’’آمدم دیدم رفتم‘‘ سوا کچھ بھی نہیں ایک طویل عرصے سے اس پر امریکی چھاپ ہی نہیں امریکی فیصلے پر عمل کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے او آئی سی کے تجدیدی قیام سے یہ تاثر نہیں آنا چاہیے کہ اس پر سے امریکی چھاپ ختم ہونے کے بعد فیصلے واشنگٹن کے بجائے بیجنگ سے نازل ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو خدشہ ہے کہ مسلمانوں کو شدید تباہ کن صورتحال کا سامنا ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین ہو یا امریکا دونوں ہی کو مسلمانوں کی ترقی اور تحفظ سے یکسر کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی ان سے اس سلسلے میں کوئی توقع رکھنی چاہیے۔ او آئی سی کی تجدید کا مقصد مسلمانوں کی جان مال عزت وآبرو کا تحفظ ہونا چاہیے۔