لبنان میں دھماکے یا میزائل حملہ (آخری قسط)

958

2006ء میں حزب اللہ کے سید حسن نصر اللہ اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے رہتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس جنگ میں فتح نصیب ہوئی۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس بریگیڈ کے کمانڈر نے غاصب صہیونی حکومت کی 2006 میں لبنان پر مسلط کردہ تینتیس روزہ جارحیت کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی مزاحمت کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ جارحیت بند نہ ہوئی ہوتی تو اسرائیلی فوج ختم ہوجاتی۔ 2006ء میں حزب اللہ کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل نے لبنان پر یلغار کا آغاز کیا اور اس جنگ میں اسرائیل کو بین الاقوامی سامراجی طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کی حمایت حاصل تھی اور اس جنگ کا مقصد حزب اللہ اور لبنان کو ختم کرنا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے مجاہدین کی کامیابی کا جو وعدہ کیا ہے وہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں اپنا وعدہ پورا کیا اور حزب اللہ لبنان کو اسرائیل پر فتح عطا کی اور اسرائیل کی طاقت کا طلسم توڑ دیا۔
جنرل قاسم سلیمانی نے اس جنگ کے بارے میں کہا تھا کہ حسن نصراللہ کی تقریر کے دوران حزب اللہ نے اپنا پہلا میزائل داغا جس میں ایک اسرائیلی جنگی کشتی کو نشانہ بنایا گیا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ یہ جارحیت کس طرح بند ہوئی، اس وقت کے قطر کے وزیر خارجہ سے امریکی عہدیدار جان بولٹن اور اقوام متحدہ میں تعینات اسرائیلی سفیر کی ملاقات کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلیوں نے اپنی تمام شرطوں سے صرف نظر کرلیا اور حزب اللہ کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ صہیونی حکومت نے حزب اللہ کی شرائط پر جنگ بندی کو قبول کیا اور اس طرح تینتیس روزہ اسرائیلی جارحیت میں حزب اللہ کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ اور سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے کامیابی کے دعوؤں برعکس اس جنگ کی اصل صورتحال یہ تھی کہ اسرائیل نے حزب اللہ اور عیسائیوں کے علاقوں کے سوا پورے بیروت کو اسی طرح تباہ کر دیا تھا جس طرح 4اگست 2020ء کو بیروت کو تباہ کیا ہے، اس حملے میں صرف وہ علاقے تباہ ہوئے ہیں جہاں فلسطینی اور بشارالاسد کے ظلم سے تنگ آکر بیروت میں بس جانے والے لوگ موجود تھے۔
اصل حقیقت یہ تھی کہ اس جنگ میں اسرائیل نے بیروت پر 214 ہوائی حملے کیے اور بیروت میں ہر عمارت کو بہت نچلی پرواز کرتے ہوئے نشانہ لے کر تباہ کیا گیا۔ جس جنگ کو حسن نصر اللہ اور جنرل قاسم سلیمانی کامیابی بتا رہے تھے، اس کے بارے میں جنرل قاسم سلیمانی نے اُس وقت بتایا تھا اور نہ اب کوئی کچھ بتاتا ہے۔ قاسم سلیمانی نے صہیونیوں پر لگائی جانے والی حزب اللہ کی کاری ضربوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حسن نصراللہ کی تقریر کے دوران حزب اللہ نے اپنا پہلا میزائل داغا جس میں ایک اسرائیلی جنگی کشتی کو نشانہ بنایا گیا لیکن سوال یہی ہے کہ اس سے اسرائیل کو نقصان کیا ہوا تھا۔ کیا یہ اس جنگ کا اصل مقصد تھا؟ اس سلسلے میں رفیق الحریری کے بیٹے سعد الحریری کا کہنا ہے کہ صرف سنی علاقوں میں تباہی اصل مقصد ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ میں کوئی لنک ضرور ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔
دھماکے بعد عیسائی صدر عون مشیل، امریکی صدر ٹرمپ اور فرانس و دیگر عرب ممالک کی امداد اور بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ رات عیسائی صدر عون مشیل نے یہی کہا ہے کہ یہ دھماکا نہیں حملہ تھا۔ بم دھماکے کے تین دن بعد حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بندر گاہ پر حزب اللہ کے میزائل اور اسلحہ کا ذخیرہ تو کیا ایک گولی بھی موجود نہیں تھی۔انہوں نے دھماکوں کے بعد میڈیا اور کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف بیان کیے گئے دوسرے موقف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کو بیروت بندر گاہ دھماکوں کا ذمے دار قرار دیا جا رہا تھا۔ یہ سچ نہیں ہے۔ حسن نصر اللہ نے دھماکوں کی وجوہات اور نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ حملہ میزائل یا ڈرون یا یہ کہ کوئی اور حملہ بھی تھا تو پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ امونیم نائٹریٹ کا بہت بڑا ذخیرہ بندر گاہ پر گزشتہ چھ برس سے موجود تھا تو اس کی ذمے داری حکومت اور سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ سب تین دن کے بعد یاد آیا لیکن اس میں ایک بات جو پاکستان کے اخبارات نے نہیں چھاپی ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر یہ میزائیل حملہ تھا تو یہ اسرائیل نے نہیں کیا‘‘۔ یہی تو ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ایران سے اسرائیل تک آپ پوری آزادی سے کھومتے ہیں اور اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ 2006ء میں اسرائیل کو شکست دینے کے لیے ایران سے سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی بھی آپ کی مدد کو آتے رہے ہیں اور اب بھی سپاہ قدس کے کمانڈر آتے ہوں گے لیکن اس کے باوجود آپ کو صرف اتنا معلوم ہے اسرائیل دھماکے میں شامل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ شام، عراق اور ایران کے بارے میں کیا خیال ہے۔ خبر یہ ہے کہ ’’بیروت بم دھماکے کے بعد حزب اللہ کے کمانڈر او ر ان کی بیٹی کو ان گھر کے اند ر قتل کر دیا گیا لیکن اس خبر کی تصدیق غیر جانبدار ذرائع سے نہیں ہو سکی ہے۔
دھماکوں کے سلسلے میں “The jerusalem post”کا کہنا ہے کہ: “The real tragedy for Lebanon is Hezbollah’s continuing stranglehold. یہ بڑے دکھ کی بات ہے حزب اللہ کے علاقے محفوظ ہیں۔
یہ سب کچھ درست ہے یا اس میں کچھ غلط بھی ہے لیکن اِس سوال کا جواب کون دے کا کہ بشارالاسد سے تنگ ہزاروں بے گھر افراد جنہوں نے بیروت میں پناہ لے رکھی تھی ان کا دشمن کون تھا جس نے بیروت میں ان کو موت کی نیند سلادیا اور کیا یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ اور ان ساتھی قاسم سلیمانی دونوں ان مہاجرین کے خلاف شام میں بشارالاسد کے ساتھ مل کر جنگ کرتے رہے اور یہی شامی اگر خیریت اور سکون سے لبنان میں زندگی گزار رہے تھے تو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نہ سہی لیکن کارکنا ن ِ حزب اللہ کو یہ بات ہرگز پسند نہ ہوگی۔
شام بھی ایک ایسا ملک ہے جس کے بارے میں حدیث ِ مبارک ہے کہ ’’یہاں ایک ایسی جنگ ہوگی جس میں اگر ایک شخص کے سو بیٹے ہوں گے تو اس میں سے ایک بچے گا‘‘۔ لیکن کیا یہ وہی شام ہے جس کا سربراہ مسلمانوں کا قاتل بشارالاسد ہے۔ حدیث ِ مبارک میں جس شام کا ذکر ہے اس میں شام، بحرین، اردن، لبنان اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کے قیام کا صرف ایک مقصد یہ بتایا جاتا ہے اور وہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا قیام ہے لیکن گزری صدی اور خاص طور پر ایران سے شاہ ایران کے اقتدار کے خاتمے اور’’امام خمینی‘‘ کی ایران آمد کے بعد ’’گریٹر ایران‘‘ کی تحریک بھی بڑی تیزی سے پھیلائی جا رہی ہے۔ ’’گریٹر ایران‘‘ میں ایران، عراق، شام، لبنان اور بحرین اور کچھ دیگر ممالک کے علاقے بھی شامل ہیں۔ عالمی ساہوکاروں کا منصوبہ ہے ’’اس سلسلے میں ایران کے موجودہ حکمران ایک عرصے سے اس بات کا اعلان کرتے رہے ہیں کہ ایران کا دارالحکومت بغداد کو بنایا جائے‘‘۔ حدیث ِ مبارک کے مطابق گریٹر اسرائیل کا قیام ہی یہودیوں کا ’’گریٹر قبرستان‘‘ ہے اس لیے یہ بات یا رکھنے کی ہے۔ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا کسی طور پر ساتھ دینے والا اور مسلمانوں کا قاتل بھی یہودیوں کے ’’گریٹر قبرستان‘‘ میں دفن ہو جائے گا۔