لبنان میں دھماکے یا میزائل حملہ

822

لبنان میں دھماکوں سے انکار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو دن کے دوران دوسری مرتبہ اپنے اس بیان پر اصرار کیا ہے جمعرات کو ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعلان کیا کہ یہ ’’بم دھماکے نہیں لبنان کو تباہ کرنے کے لیے میزائل حملہ کیا گیا ہے‘‘۔ ٹرمپ نے دھماکے کے فوری بعد یہ کہا تھا کہ جس کو امریکی اخبارات نے جمعرات وجمعہ کو شائع کیا کہ ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیروت دھماکے کے بارے میں ایک اہم انکشاف کیا ہے کہ ان کے جنرلوں نے ان کو بتایا ہے یہ دھماکا نہیں بلکہ حملہ ہے‘‘۔ جمعہ کو رائٹر کی خبر کو تمام اخبارات نے لگایا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوبارہ یہ معلوم کیا تو انہوں نے دوبارہ یہی جواب دیا کہ ’’بیروت دھماکا ایک میزائل حملہ ہے‘‘۔ اے پی نیوز، اے بی سی نیوز اور یو ایس نیوز کا جمعرات کو یہی کہنا ہے کہ! trump again says lebanon blast might have been Attacked اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس کے چیف آف ملٹری اسٹاف کے حوالے سے امریکی اخبار POLITICO کا کہنا ہے کہ وہ پوری طرح تمام باتوں کے گواہ ہیں۔ تمام صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک ایسا ہی حملہ ہے جس طرح 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کے دوران ہوا تھا۔ اُسی طرح 4اگست 2020ء دھماکے سے قبل 15 دن سے جاری اسرائیل اور حزب اللہ کی کشیدگی کے بعد ایک مرتبہ پھر بیروت کو تباہ برباد کر دیا گیا۔
بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کے بارے میں بہت کم بتایا جارہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دھماکے سے زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے نیچے ہزاروں افراد دبے ہوئے ہیں اور یہاں ریسکیو کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے۔ علاقے میں بجلی گزشتہ دو ہفتوں سے نہیں ہے۔ فوری طور پر بدھ کو رات گئے فرانس کے صدر امانوئل میکرون پہنچے اور یہاں امدادی کاموں کے لیے ضروری فنڈ جاری کرنے کے لیے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ میکرون بیروت پہنچتے ہی بغیر کسی حفاظتی دستے کے زخموں اور دکھوں سے چور، روتے بلکتے لبنانیوں سے گلے لگ گیا اور ان سے مل کر خوب رویا اور یقین دلایا کہ اب جو مدد دی جائے گی اس میں مقامی لیڈران کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ لبنانی اس کافر کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور یہی کہتے رہیں گے۔ ’’جو درد دیا اپنوں نے دیا، غیروں سے شکایت کون کرے‘‘۔
دھماکے والی رات ملک کے عیسائی صدر عون مشل نے کہا تھا کہ دھماکے کی وجہ 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ بنا جو وہاں غیر محفوظ انداز میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ کسٹم چیف بدری داہر نے کہا ہے کہ ان کی ایجنسی نے ان کیمیکلز کو ہٹانے کے لیے کہا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے ہٹایا کیوں نہیں گیا اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ صدر کا کہنا تھا کہ ’اس خوف کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا جس نے گزشتہ شب بیروت پر حملہ کیا، یہ شہر تباہ ہوگیا‘۔ یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ پورا شہر ہل کر رہ گیا اور اس کے اثرات 240 کلومیٹر دور بھی محسوس کیے گئے جہاں لوگوں نے اسے زلزلہ سمجھا۔ اس بندر گاہ پر لبنان پہنچنے والی گندم اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں اور اس سے 80فی صد لبنانیوں کی خوراک کا انتظام کیا جانا تھا۔ لبنان اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک روٹی کی قیمت 2000ہزار لبنانی لیرا ہے۔
5اگست 2020ء کو یروشلم پوسٹ نے ایک چونکا دینے والی خبر لگائی جس نے ٹرمپ کی باتوں کی تصدیق کر دی ہے کہ ’’یہ دھماکا نہیں بلکہ حملہ ہے‘‘۔ یروشلم پوسٹ کا کہنا ہے کہ پورٹ پر رکھے 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ کے بارے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو دھمکی دی تھی کہ وہ اس امونیم نائٹریٹ سے اسرائیل پر حملہ کر دیں گے اور پورے اسرائیل کو اُڑا دیں گے۔ اس سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ جس کو دھمکی دی گئی تھی کہ امونیم نائٹریٹ سے اڑا دیں گے۔ اُسی نے اس امونیم نائٹریٹ کے اس ڈھیر کو اُڑادیا اور پورے بیروت کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس سلسلے میں ISRAEL HAYOM کا کہنا ہے کہ: ’’لبنان دھماکے نے لبنان کی معیشت کو تباہ اور حزب اللہ کو بیروت سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا ہے‘‘۔ ان دونوں بیانات کو اگر دیکھا جائے تو اس کے تانے بانے بہت دور تک جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے اگست 2020ء کے کالم ’’افغانستان: بھارتی دہشت گردی اور پاکستان کی خاموشی‘‘ میں لکھا تھا کہ: ’’بیجنگ واشنگٹن کی لڑائی بڑھتے بڑھتے افغانستان اور سینٹر ایشیا، سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ تک پہنچ چکی ہے، ایسا ہی کچھ بیروت بم دھماکے میں بھی ہوا جیسا کہ جلال آباد کی مرکزی جیل پر حملے میں کیا گیا تھا۔ لبنانی ریڈ کراس کے سربراہ جارج قیطانی کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک بہت بڑی تباہی دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف زخمی اور لاشیں ہیں‘۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کس قدر ہو سکتی ہے۔
لبنان میں طرز حکومت کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ لبنان میں 18مذہبی فرقوں کو دستور میں قانونی تحفظ دیا گیا ہے اور ان کو کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ بنایا گیا ہے، مختصراً یہ ہے کہ ’’لبنان کا صدر عیسائی، وزیر اعظم سنی اور اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ 1945ء میں ناانصافی پر بنایا گیا طرزحکومت لبنان کی اکثریت کو تباہ و برباد کر گیا۔ اس سلسلے میں یہ بتاتا چلوں کہ حزب اللہ نے دوسال سے لبنان میں انتخابات نہیں ہونے دیے اور اپنی پسند کی حکومت بنانے کی کوشش کرتی رہی۔
یہ با ت بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ 15دن سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان شدید کشیدگی جاری تھی اور 2006ء میں بھی اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان شدید کشیدگی کی وجہ سے 33 دن تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس جنگ اور 4اگست 2020ء کے بم دھماکے میں بہت حد تک یکسانیت ہے کہ: ’’اسرائیل اور حزب اللہ‘‘ کے درمیان شدید کشیدگی کے دوران لبنان کے وہ علاقے جہاں حزب اللہ اور عیسائی آبادی ہیں مکمل طور پر محفوظ رہتے ہیں۔ اسی طرح 2006 میں 33دن جنگ کے دوران اسرائیل کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوا اور اس کے برعکس فلسطینی اور لبنانی وزیر اعظم کے علاقوں میں بدترین تباہ کاری اور سیکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں سامنے آئی تھیں۔ اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں اس وقت بھی اربوں کی معاشی تباہی سے عوام کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔
(جاری ہے)