پہلا ٹیسٹ :بڑھکیں مارنے والے منہ چھپانے لگے

315

پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈ سے قبل بولنے، دعوے کرنے اور بڑھکیں مارنے کا وقت تھا جو گزر گیا۔ پہلے ٹیسٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم، ٹیم کے کوچز، منیجر اور کرکٹ بورڈ کے ذمے داران اسی پوزیشن میں آکھڑے ہوئے ہیں جہاں کچھ عرصہ قبل دوسرے لوگ تھے۔ تنقید کی چھریوں سے ان کو ذبح کیا جا رہا تھا۔ آج وہی چھری ان کی گردنوں پر آگئی ہے۔ اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے یہی توقع تھی کہ پاکستانی بیٹسمین اچھی اننگز کھیل کر میچ کو ڈرا کی طرف لے جائیں گے اور پاکستانی ٹیم عزت بچا کر نکل جائے گی۔ لیکن اگر شان مسعود غیر متوقع اور غیر معمولی اننگز نہ کھیلتے تو یہ پورا میچ یکطرفہ ہی لگ رہا تھا۔ ایک رات قبل جو میچ پاکستان کے لیے 50 فیصد امکانات لیے ہوئے تھا۔ صبح کو پاکستان کی شکست پر منتج ہوا۔ شان مسعود کی اننگز شاید اس کی زندگی کی یادگار اننگز کہلائے گی لیکن یہ اننگز پاکستان کو کامیابی نہیں دلا سکی۔ اگر اس ٹیسٹ کا سرسری تجزیہ کیا جائے تو جو موٹی موٹی باتیں سامنے آئی ہیں ان میں سے پہلی تو ٹیم کا انتخاب درست نہ ہوتا تھا۔ پاکستانی ٹیم میں ایک بیٹسمین کم کھلایا گیا اور شاداب خان کو آل رائونڈر کے طور پر کھلایا گیا جبکہ یاسر شاہ ٹیم میں شامل ہے۔ اسی طرح ایک ہی قسم کے دو اسپنر کھلانا بھی غلط فیصلہ تھا۔ اگر ٹیم میں دو دو اسپینرز کھلانے ہی تھے تو یاسر شاہ کے ساتھ کاشف بھٹی کو کھلایا جاتا تو بہتر ہوتا۔ اس کا سبب لیفٹ آرم ہونا ہے۔ کاشف بھٹی کی بیٹنگ بھی کافی بہتر ہے لیکن سلیکٹرز یہ نکتہ فراموش کر گئے اور ٹیم میں ایڈجسٹمنٹ نہیں کر سکے۔ کہ انگلینڈ کے دو اہم بیٹسمین جوروٹ اور بین اسٹوکس ہیں۔ ان میں بین اسٹوکس بائیں ہاتھ سے کھیلتے ہیں انہیں رائٹ آرم لیگ اسپینر تنگ نہیں کر سکتا تھا۔ اسٹوکس ہمیشہ لیفٹ آرم اسپینرز کے سامنے پھنسا ہے۔ اس لیے کاشف بھٹی بہترین انتخاب تھا نہ کہ شاداب خان۔
کرکٹ کی ٹیموں میں پہلے 16 کا انتخاب اگر غلط ہو تو پورا دورہ خراب ہوتا ہے پھر بھی اگر 16 میں کوئی کام کا کھلاڑی موجود ہو اور سلیکٹرز کی نظر اس پر نہ پڑے تو اسے کس کی ناکامی قرار دیا جائے گا لیکن ایسا ہوگیا۔ دو اسپینرز ہوتے تو انگلینڈ کو چوتھی اننگز میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا تھا اس کے لیے پاکستان کے کسی آل رائونڈر یا بیٹسمین کو ایک اور بڑی اننگز کھیلنی ضروری تھی۔ یہ رنز پچاس ساٹھ بھی ہوتے تو بڑا فرق پڑ جاتا۔ اگر شاداب خان کی پرفارمنس دیکھیں تو اس کی پرفارمنس سے زیادہ اس کا مصباح الحق کی اسلام آباد یونائیٹڈ سے تعلق ہی کافی ہے۔ اس ٹیم کا منیجر اور کوچ مصباح الحق ہے۔ اسے کیا کہا جاسکتا ہے۔ پاکستانی ٹیم کے ساتھ اچھی پرفارمنس دینے والا ایک بولر موجود ہے اس نے سائیڈ اور پریکٹس میچز میں سب سے اچھی بولنگ کی اور وہ ہے سہیل خان، انگلینڈ میں اس کا ٹریک ریکارڈ بھی بہت اچھا ہے۔ اسی طرح نسیم شاہ ایک اچھا بولر تو ہے لیکن اس کا تجربہ ابھی کم ہے اس کی جگہ سہیل خان بہتر انتخاب ہو سکتا تھا اور میچ کا پاکستان کی طرف جھکائو ہونے کا امکان بڑھ جاتا۔
پہلے ٹیسٹ میچ کے بعد یہ ثابت ہوا (بورڈ کے ذمے داران کے لیے) کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں مواقع کی بنیاد پر نتائج آتے ہیں جس کو جب موقع ملے وہ اچھا کھیل پیش کر دیتا ہے۔ لیکن پہلے ٹیسٹ نے یہ سبق تو دے ہی دیا ہے کہ اب لمبی لمبی باتیں نہ کی جاتیں۔ ٹیم کے انتخاب کی غلطیوں کو درست کیا جائے۔ میدان میں بہتر حکمت عملی کا اہتمام کیا جائے اور کھلاڑیوں کا کیا قصور وہ تو آگئے ہیں منتخب ہو کر آتے ہیں ان کے لیے صرف ایک مشورہ ہے۔ گھبرانا نہیں… یہ مذاقاً نہیں کہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ساٹھ ٹیسٹ کھیلنے والے کو بھی گھبراہٹ سے بچنا چاہیے اور پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے کو بھی۔ اگر اپنا فطری کھیل کھیلتے رہے تو ظہیر عباس، آصف اقبال، میانداد وغیرہ تیار ہونا مشکل کام نہیں۔