سوال گندم جواب چنا ملتا ہے

636

موجودہ حکومت پاکستان کی وہ واحد حکومت ہے جس کے پاس عوام کے سامنے بطور کارکردگی بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں سوائے سابقہ حکومتوں کی عیب جوئی کرنے کے۔ پاکستان میں ایک جمہوری (نام نہاد) حکومت کے پاس کل 60 ماہ ہوتے ہیں لیکن یہ 60 ماہ پاکستان میں اب تک ان حکومتوں کو ملے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے آگے بالکل ہی لیٹ گئیں اور جیسے تیسے کرکے اپنی قانونی مدت کو پورا کرتی رہیں۔ اب تک بالکل ’’لم لیٹ‘‘ ہوجانے والی حکومتوں میں مسلم لیگ ق، ن اور پی پی پی تھیں لیکن جس مصیبت کے ساتھ ان کی قانونی مدتیں پوری ہوئیں یا تو وہ خود جانتی ہوں، عوام کو معلوم ہے یا پھر چشمِ فلک کو ان کے دکھ درد دکھائی دیے ہوں۔ موجودہ حکومت گوکہ لائے ہی ’’باد شاہ گر‘‘ ہیں اور اِس کے پاس جو بھی طاقت ہے وہ ان ہی کی مرہون منت ہے، لیکن طاقت فراہم کرنے والوں کے خود ہاتھوں کے توتے اڑے ہوئے ہیں کہ اب تجربات در تجربات کے بعد مزید کریں بھی تو کیا کریں۔ عالم یہ ہو کر رہ گیا ہے کہ ہر سیدھی سے سیدھی تدبیر بھی الٹ کر رہ گئی ہے اور آنتیں ہیں کہ الٹ الٹ کر گلے پڑتی جا رہی ہیں۔
موجودہ حکومت کے جتنے بھی وہ سپورٹر جو پورے اخلاص کے ساتھ بغیر کسی غرض اب تک ساتھ نبھائے چلے جا رہے ہیں اب ان کے لب لہجے میں وہ لوچ رہا ہی نہیں جس میں دلوں کے اندر سے نکلتی ہوئی آواز شامل ہوا کرتی تھی لیکن الیکشن سے قبل انہیں نے اپنے گلی کوچوں میں جس انداز میں خان صاحب کی تصویر اور ان کی حکومت بن جانے کی صورت میں نئے پاکستان کا جو نقشہ پیش کیا تھا، اس کے بعد ان کے پاس اور کوئی راستہ رہ ہی نہیں گیا ہے کہ دل سے نہیں تو اوپرے پن کے ساتھ ہی موجودہ حکومت کی کسی نہ کسی طرح کوئی ایسی تصویر پیش کر سکیں جس کی وجہ سے گھر سے باہر قدم نکالنے کے بعد وہ عوام سے، چور نگاہوں کے ساتھ ہی سہی، آنکھیں ملا کر بات کر سکیں۔ بے شک وہ سب کے سب کسی نہ کسی طرح اپنے دل، عوام کو سمجھانے اور اطمینان دلانے میں لگے ہوئے ضرور ہیں لیکن اگر ان کی مایوسیوں پر غور کیا جائے تو ان کے تلخ سے تلخ ہوتے لہجے، مغلظات کی صورت میں منہ سے نکلتے ہوئے الفاظ اور جھاگ اس بات کی غمازی کرتے صاف نظر آئیں گے کہ وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اندر ہی اندر کٹتے چلے جا رہے ہیں لیکن انائیں ان کو سچ اگلنے سے مسلسل روکے چلے جا رہی ہیں۔
بات سچ یہی ہے کہ وظیفہ خوار وزرا، مشیران اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج کے پاس بھی کہنے کے لیے ایسا کچھ نہیں جو دل کے گہرائی کے ساتھ بیان کیا جا سکے اسی لیے ہر وہ سوال جس میں سوال ’’گندم‘‘ جواب ’’چنا‘‘ کی صورت میں دیتے نظر آتے ہیں اور کسی قسم کی کار کردگی کے متعلق سوال کیا جائے تو جواب میں گزشتہ حکومتوں کے کیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔
سپورٹر کبھی غیر ملکی دوروں میں ہونے والے استقبال کی تصاویر لگا کر، کبھی اقوام متحدہ کی تقریر چلا کر قد انچا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کیا اس سے پہلے سر براہوں پر دنیا میں جوتے برسائے جاتے رہے ہیں یا مختلف ایوانوں میں ان کی تقریروں کی گھن گرج ابھی تک نہیں گونج رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ غیر ملکی استقبال سے نہ تو غریب کا چولہا جل سکتا ہے، نہ ہی اقوام متحدہ کی تقریر کشمیریوں کو آزادی دلا سکتی ہے اور نہ ہی بیروز گاری کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ لوگ تو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے وعدوں پر عمل درآمد ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ عوام جو 8 روپے یونٹ کے بلوں کو جلتے دیکھ کر اس خوش فہمی میں مبتلا رہے تھے کہ ان کو 4 روپے فی یونٹ بجلی کا بل ملا کرے گا وہ اب 20 روپے فی یونٹ پر آنسو نہیں بہائیں گے تو اور کیا کریں گے۔
جو حکومت دوائیں 300 فی صد بڑھادے، کھانے پینے کی اشیا تین تین گناہ مہنگی کر دے، گوشت، اناج، گھی، چینی جیسی اشیا کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دے اور پٹرول دنیا میں کم ترین سطح پر فروخت ہونے کے باوجود 100 روپیہ فی لیٹر خریدے تو پھر سپورٹر خود بتائیں کہ ایسے حکمران کی خوبصورتی، ایمانداری، اقوام متحدہ کی تقریر اور بیرونی ممالک میں شاندار استقبال کی موویوں کو رات دن چاٹ کر اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں؟۔
جس حکومت اور اس کے منتخب نمائندوں کی کار کردگی کا یہ عالم ہو کہ گٹروں، نالوں اور گلی کوچوں کی صفائی افواج پاکستان کو بلدیاتی نمائندوں کے برابر پہنچا دے، اس حکومت کی کارکردگی کو کس منہ سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ جب کسی حکومت کی کارکردگی اس درجہ گر جائے کہ ’’جوان‘‘ میونسپل کار پوریشن کے اہل کاروں کی صف میں لا کھڑے کر دیے جائیں تو اس کے وظیفہ خوار وزرا، مشیران یا ترجمانانِ حکومت ہوں یا عام مخلص اور بے غرض کارکنان، ہر وہ سوال جو ’’گندم‘‘ کے متعلق پوچھا جائے اس کے جواب میں ’’چنا‘‘ نہیں کہیں گے تو پھر ان کے پاس دفاع کرنے کا اور کیا راستہ رہ جائے گا۔