بلدیاتی اداروں کی اہمیت

1224

بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری معاشرے کی جان اور پہچان ہوتے ہیں۔ یہ وہ فورم ہے جس کے ذریعے عوام کو ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک آج ہمیں جمہوریت کے استحکام کے جس معراج پر کھڑے نظر آتے ہیں اس میں بنیادی کردار مقامی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا باقاعدگی سے منعقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی فعالیت اور اس پلیٹ فارم سے لوگوں کے مسائل کا مقامی سطح پر فی الفور حل ہونا ہے۔ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ ہمارے ہاں جدید مغربی جمہوریت کا تصور برطانوی راج کا مرہون منت ہے۔ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہم جب بھی برصغیر پاک وہند کی تاریخ اور اس میں انگریزوں کی یہاں آمد اور لگ بھگ دوسو سال تک ان کے اقتدار پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ عرصہ بلا شک وشبہ برصغیر پاک وہند کے کروڑوں عوام کی بے بسی کے منہ بولتے ہوئے ثبوت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ بنگال، میسور، پنجاب، سندھ، خیبر پختون خوا پر اپنے توسیع پسندانہ اقدامات کے ذریعے قبضوں خاص کر جنگ آزادی 1857 کے دوران اور اس کے فوراً بعد ہندوستان کے مسلمانوں پر جس طرح عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور ان پر مختلف سزائوں کی صورت میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر جو مظالم ڈھائے گئے اس بحث سے قطع نظر ایک سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ اگر انگریزوں کو یہاں آنا نصیب نہ ہوتا تو کیا پاکستان کا بننا ممکن ہوتا، کیا یہاں کے لوگوں کو جمہوریت سے مستفید ہونے کا موقع مل سکتا تھا، کیا یہاں سیاسی جماعتیں وجود میں آ سکتی تھیں، کیا یہاں ووٹ کے ذریعے حکومتیں بننے اور ٹوٹنے کا عمل پنپ سکتا تھا۔ عجوبہ نما پلوں اور سرنگوں کا حامل ریلوے اور شاہراہوں کا ناقابل یقین نیٹ ورک وجود میں آ سکتا تھا۔ اسی طرح ڈاک، زمین کی پیمائش، ریوینیو سسٹم، پولیس اور سول سروس کا نظام انگریزوں کے یہاں متعارف کرائے گئے وہ اقدامات ہیں جن کی بناء پر ہی پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں آج یہ تمام ادارے ان ممالک کے نظام ہائے مملکت کی بنیاد ہیں۔ ان ہی اداروں میں ایک اور قابل ذکر ادارہ مقامی حکومتوں کے قیام کا ہے جو لوکل گورننس کے ذریعے مقامی سطح پر لوگوں کے چھوٹے موٹے مسائل کو حل کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہو رہا ہے۔ اگر ایسانہ ہوتا تو نہ تو یہ ادارے ترقی یافتہ مغربی جمہوریتوں میں پروان چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر شعبے میں چونکہ گنگا الٹی بہتی ہے اور اس طرز عمل کا اثرچونکہ سیاست اور سیاسی اداروں میں کچھ زیادہ نظر آتا ہے اس لیے ہمارے ہاں سیاست کی بہت ساری کمزوریوں کے ساتھ ساتھ ایک منفی پہلویہ بھی ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق اگر ہمارے ہاں جمہوری روئیے پروان نہیں چڑھ سکے۔ سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بننے کے بجائے حقیقی معنوں میں عوام کے امنگوں کی ترجمان نہیں بن سکیں، جمہوریت اور ووٹ کی طاقت پر لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوسکا، لوگ جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور کسی آمر کی جانب سے آئین کو روندتے ہوئے آٹھ دس سال تک اقتدار پر قابض رہنے کا خیرمقدم کیاجاتا ہے تو اس کا ذمے دار کسی اور سے زیادہ خود سیاستدان اور ہماری سیاسی جماعتیں ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات سے نہ صرف کنی کتراتی ہیں بلکہ ہماری اکثر جماعتیں چند نامی گرامی سیاسی خانوادوں کے گھروں کی لونڈیاں بنی ہوئی ہیں، ان جماعتوں میں عام ورکرز تو ایک طرف پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران اور منتخب نمائندوں کے ساتھ پارٹی قیادت کی جانب سے جو ناروا سلوک ہوتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دراصل اس طرز عمل کی بنیادی وجہ پارٹیوں میں نسل در نسل چلنے والا موروثیت کا کلچر ہے جس نے اگر ایک طرف ہمارے سیاسی کلچر کو بے اعتبار بنادیا ہے تو ودسری جانب اس کا نقصان جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بے وقعتی کی صورت میں بھی سامنے آ رہا ہے۔
سیاسی اشرافیہ کی جانب سے سیاست اور جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ اور عبادت سمجھے جانے والے اس پیشے کو بدنام کرنے کا ایک اور بڑا سبب جمہوریت اور سیاست کی نرسریاں سمجھے جانے والے بلدیاتی اداروں کی بے وقعتی اور ان اداروں کو ہماری 72 سالہ تاریخ میں جمہوری حکومتوں کے دوران پہنچنے والا نقصان ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ہمارے ہاں جہاں بلدیاتی اداروں کی داغ بیل جنرل ایوب خان کے پہلی آمرانہ دور حکومت میں پڑی تو وہاں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے ادوار حکومت میں سب سے زیادہ توجہ ان اداروں کے قیام اور استحکام پر مرکوز رکھی جب کہ اس کے برعکس منتخب جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کے قیام اور انہیں مطلوبہ اہمیت دینے سے ہمیشہ احتراز کرتی رہی ہیں جس کی تازہ مثال موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو دوسال تک ملتوی کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی سے قانون سازی کرانا ہے جو یقینا اس حکومت اور اسمبلی کا حق ہے لیکن اس حق کو مقامی حکومتوں کے قیام کی قیمت پر بروئے کار لانے کو کسی بھی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ موجودہ برسر اقتدار جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے جس کو پاکستان میں اختیارات حقیقی معنوں میں نچلی سطح پرمنتقل کرنے کی خالق جماعت سمجھا جاتا ہے اور جس کا کریڈٹ اسے 2018 کے انتخابات میںبھاری کامیابی کی صورت میں مل بھی چکا ہے لہٰذا توقع ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کا آپشن استعمال کرنے میں کسی لیت ولعل سے کام نہیں لے گی۔