کے الیکٹرک فرار کے راستے کی تلاش میں؟

795

چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال نے عوامی شکایات اور میڈیا رپورٹس کا نوٹس لیتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ نیب کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق کے الیکٹرک پر الزام ہے کہ اس نے غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کے ساتھ اربوں روپے کی اوور بلنگ کی ہے۔ اعلامیے کے مطابق حکومت پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق کے الیکٹرک کو بجلی کی پیداوار کے لیے سرمایہ کاری کرنا تھی، کے الیکٹرک پر اس معاہدے کی مبینہ طور پر مکمل پاسداری نہ کرنے کا بھی الزام ہے۔ چیئرمین نیب نے نیب کراچی کو کے الیکٹرک سے معاہدے کی کاپی سمیت متعلقہ دستاویزات اور سرمایہ کاری کی تفصیلات حاصل کرنے کی ہدایت کردی ہے جب کہ انہوں نے نیب کراچی کو کے الیکٹرک کے خلاف 3 ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ چیئرمین قومی احتساب بیورو نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق ہمیشہ اپنے فرائض سر انجام دینے پر یقین رکھتا ہے، کے الیکٹرک کو اوور بلنگ کی مد میں مبینہ طور پر اربوں روپے ہتھیانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چیئرمین نیب کا مزید کہنا تھا کہ نیب بلاتفریق احتساب پر یقین رکھتا ہے، نیب کے الیکٹرک کو غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ اور معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دے گا۔
اگرچہ نیب کی جانب سے کے الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا فیصلہ یقینا کراچی کے لوگوں کے لیے اطمینان کا باعث ہوگا لیکن شہریوں کے لیے موجودہ حالات میں یہ یقین کرنا اس لیے مشکل ہوگا کہ کے الیکٹرک ایک ایسے خود سر گھوڑے کی طرح سامنے آیا ہے جس کا ابھی تک وفاق کی دو منتخب اور ایک نگران حکومت کے ساتھ عدالت عظمیٰ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ لوگ سوال کرنے لگے تھے کہ آخر کیوں اب تک اس ادارے کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکی۔ شہری اس بات پر بھی حیران ہیں کہ جماعت اسلامی کراچی کی طرف سے کے الیکٹرک کے خلاف مسلسل احتجاجی دھرنے کے بعد کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو مونس علوی کی جانب سے 15 جولائی کو کی جانے والی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی پر مبنی پریس کانفرنس کے اگلے دن نیب کو یا نیب کے چیئرمین کو کے الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا خیال کیوں آیا؟ کراچی کے ڈسے ہوئے اور رلائے ہوئے لوگ یہ سمجھنے بلکہ یہ شبہ کرنے پر مجبور ہیں کہ کہیں یہ کراچی کے لوگوں کا کے الیکٹرک کے خلاف بڑھتے ہوئے غصے کو کم یا ختم کرنے کی کوشش تو نہیں ہے؟
خیال رہے کہ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو نے پریس کانفرنس میں لوڈ شیڈنگ کا اعتراف کرتے ہوئے بلا جھجھک اس بات کا اظہار کیا تھا کہ صارفین ٹھنڈے موسم تک لوڈ شیڈنگ ختم کیے جانے کا انتظار کریں۔ انہوں نے کہا اس وقت صوبائی اور وفاقی حکومت کو 237 ارب روپے کے الیکٹرک کے واجبات ادا کرنے ہیں۔ مونس علوی نے کے الیکٹرک کی جانب سے شہریوں کو ملنے والی اذیتوں میں سے سرفہرست لوڈشیڈنگ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت زیادہ مسئلہ لوڈشیڈنگ کا ہے، لوڈشیڈنگ وہاں بھی ہورہی ہے جہاں نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مستثنیٰ علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ 10سے 12دن میں درجہ حرارت کم ہوگا تو بجلی کی طلب میں کمی ہوگی جس سے لوڈشیڈنگ سے متعلق صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
کے الیکٹرک کے سربراہ نے اس دوران اپنے مقصد کی بات یہ بھی کرڈالی اور کہا کہ: اس وقت صوبائی اور وفاقی حکومت کو 237 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں اور کے الیکٹرک کو اداروں کو 160 ارب روپے واپس دینے ہیں۔ گو کہ کے الیکٹرک کے صرف 77 ارب روپے حکومتی اداروں کو ادا کرنے ہیں۔ خیال ہیکہ یہ حکومتی اداروں کی نااہلی ہے کہ انہوں نے کے الیکٹرک کے امور کے بارے میں جانچ پڑتال نہیں کی، تانبے کے تاروں کو نکال کر غیر معیاری تار نصب کرنے کا نوٹس نہیں لیا۔ اور مسلسل معاہدے کی خلاف ورزی کے باوجود اس کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا۔ نتیجے میں اب یہ حکومت پر غرانے لگی ہے۔
کے الیکٹرک کے سی ای او کی پریس کانفرنس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ یہ خود فرار کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں اور جاتے جاتے 77 ارب روپے لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات درست تصور کرلی جائے تو کراچی کے شہریوں کے لیے بڑی خبر بلکہ خوشخبری ہوگی مگر کے الیکٹرک کے ہزاروں ملازمین کے لیے بدخبری ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین کے تحت کے الیکٹرک کی گرفت سخت کرے اور اس کی انتظامیہ پر سخت نظر رکھے۔ اسے صارفین کے ساتھ کسی ملازم کا حق مارنے کی اجازت نہ دے۔