سی پیک‘ ایک روشن صبح

500

بھارتی فورسز کی درندگی انتہا کو پہنچ گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج نے سو پور میں ساٹھ سالہ شخص کو تین سال کے نواسے کے سامنے شہید کر دیا۔ بچہ عیاد جہانگیر سہما ہوا نانا کی نعش پر بیٹھ کر روتا اور مدد کو پکارتا رہا۔ عیاد جہانگیر کو بھارتی اہلکار گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور بسکٹ دلانے کا کہا، معصوم ہچکیاں لیکر مقتول شہید نانا کو یاد کرتا رہا شہید بشیر احمد خان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد سامان لینے کا کہہ کر گھر سے نکلے تھے تو قابض فورسز نے والد کو کار سے اُتارکر گولیاں مار دیں۔ جس وقت پولیس نے بچے کو اپنی تحویل میں لیا اس وقت وہ انتہائی خوفزدہ نظر آرہا تھا مقبوضہ کشمیر میں ظلم و درندگی کی انتہا کردی گئی ہے۔ تین سالہ معصوم فرشتے کے سامنے اس کے نانا کو گولیوں سے بھون ڈالنے کے واقعے نے دل دہلا دیے ہیں۔ اس سے بڑی درندگی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا بھارت دنیا بھر کے مسائل کی پروا کیے بغیر ہندوتوا کو بڑھاوا دے رہا ہے‘ کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔ کچھ ممالک نے اس وبا کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے جبکہ چند ممالک جو بظاہر بہت ترقی یافتہ اور ماڈرن نظر آتے ہیں وہ اس وبا کے آگے بے بس نظر آئے۔ مثال کے طور پر چین، جرمنی، جاپان اور نیوزی لینڈ ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے کورونا وائرس کے خلاف دفاع میں بڑی مہارت کا مظاہرہ کیا جبکہ امریکا، یورپین یونین کے ممالک مثلاً برطانیہ، اٹلی اور اسپین وغیرہ میں وبا نے تباہی مچا دی۔ یہ وبا دو طرف سے ممالک پر حملہ آور ہوتی ہے۔ ایک طرف تو اس سے قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں جبکہ دوسری طرف اس سے ممالک کی معیشت متاثر ہوتی ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے ساری معاشی سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں صنعتوں اور کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مزدور کا روزگار چھن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے امریکا کورونا وائرس کے دونوں اثرات سے متاثر ہوا ہے۔ امریکا کی اس کمزوری نے امریکا اور چین کے درمیان ایک سرد جنگ چھیڑ دی ہے۔
چین نے بیماری پر حیرت ناک تیزی سے قابو پایا اور اب اس کی خواہش ہے کہ جلد از جلد اپنی معاشی سر گرمیوں کی رفتار واپس لائے۔ بہت سے ممالک چین کی معاشی ترقی میں اس کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تاکہ چین کی ترقی کے ثمرات سے وہ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کے منصوبے کو امریکا، بھارت اور ناٹو ممالک اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس کا راستہ روکنے کے لیے سائوتھ چائنا سی کے جھگڑے، ہانگ کانگ اور تائیوان کے مسائل کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب چین کو روکنا اتنا آسان نہیں رہا۔ امریکا کی حکومت اور اس کے تھنک ٹینکس ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو جو ایشیاء، یورپ اور افریقا کو ملانا چاہتا ہے ایک ناکام اور نقصان دہ منصوبہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے سے دنیا کے کھربوں ڈالر ڈوب جائیں گے اور چین سمیت ساری دنیا قرضوں میں دھنس جائے گی۔ امریکا کے اندازے کے مطابق OBOR کے سمندری راستے اور ریلوے کے منصوبے نہایت مہنگے ہیں جن سے رکن ممالک کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکی میڈیا کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ چین ابھی مڈل انکم ملک ہے جس کے لیے اتنے بڑے بڑے منصوبے بنانا اور ان پر کھربوں ڈالر خرچ کرنا کسی طرح بھی دانش مندی نہیں ہے۔ امریکا اور بھارت چین پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ منصوبے پر نظر ثانی کرے اور اس گھاٹے کے سودے سے دور رہے۔
چین کے اس منصوبے کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کی کامیابی کو صرف معاشی اور سیاسی پیمانوں سے نہیں جانچا جا سکتا بلکہ اس کی ایک علاقائی اہمیت ہے۔ چین اس سے صرف معاشی فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ مختلف علاقوں کو آپس میں جوڑنا چاہتا ہے۔ یہ صرف پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ بہت صدیاں پہلے تجارت اور علاقوں کو آپس میں ملانے والے اس منصوبے کو ’’شاہرہ ریشم‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ شاہرہ ریشم بھی تین براعظموں یعنی ایشاء، یورپ اور افریقا کو آپس میں ملانے کا منصوبہ تھا۔ منصوبے کے مشرقی حصے میں مشرقِ وسطیٰ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد مختلف کالونیاں بننے سے شاہراہ ریشم کا منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ اب چین اسی منصوبے کو دوبارہ زندگی دینا چاہتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اسے ایک کامیاب منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ چین دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اس کی ضرورت ہے کہ خام مال چین میں آسانی سے آئے اور تیار مال آسانی سے دنیا کے مختلف حصوں میں پہنچے۔ دنیا کے سارے ترقی پزیر ممالک OBOR میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان ممالک کو نہ صرف معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملے گا بلکہ چین سے ان کے تعلقات بھی مضبوط ہوںگے۔ اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے امریکا اور بھارت جیسے ممالک نے بہت سارے اقدامات کر رکھے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اقدام ہانگ کانگ میں ہنگامے کروانے اور بندے مروانے کی پرانی حکمت عملی ہے جو اب ناکام ہو چکی ہے۔ اس طرح کی اور بھی تخریبی کاروائیاں کی جائیں گی لیکن چین نے پختہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ایسی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت دفعہ چین کی تجارتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ چین کی مصنوعات کا داخلہ امریکا میں بند کیا جا چکا ہے اور ان مصنوعات پر ٹیکس کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے۔ چین نے اس کے جواب میں یہی حکمت عملی اپنائی ہے۔ انہوں نے بھی بہت سی امریکی مصنوعات پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ امریکا چین کا تین ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے جس کا دبائو بہر حال امریکا پر ہے۔ امریکا اور بھارت چین پر دبائو بڑھانے کے لیے اقوام متحدہ میں سائوتھ چائنا سی کے مسئلے کو بھی اچھالتے رہتے ہیں لیکن چین نے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے حقوق کے تحفظ کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ اس کے برعکس جب چین نے چینی کی درآمدات میں مئی کے دوران 67.4 فی صد کمی ہوئی‘ اد ارہ شماریات بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس بلائی تو دنیا بھر سے ایک بڑی تعداد میں ملکوں کے سربراہو ں اور کاروباری شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔ یورپی یونین نے ایک ادارہ بنا دیا ہے جو یورپین ممالک کی منصوبے میں شرکت کے فوائد کا جائزہ لے گا۔ امریکا اور بھارت کا OBOR کے خلاف پروپیگنڈا ناکام ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی دوران بھارت نے کشمیر اور لداخ میں یک طرفہ کارروائی کرکے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی لیکن اسے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہا تھ نہ آیا۔ بھارت کا ایک کرنل اور 20فوجی مارے گئے اور بہت سے فوجیوں کو قید میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ بھارت نے ایک دفعہ پھر چین کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ امید ہے کہ بھارت OBOR کے خلاف مزید کسی ایسی کارروائی سے اجتناب کرے گا۔ پاکستان OBOR اور سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے گامزن ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ منصوبہ اپنے ٹائم فریم کے حساب سے آگے بڑھتا ہے۔ اس منصوبے میں گوادر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کورونا وائرس نے قوموں کی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتیں کھول کر رکھ دی ہیں۔ جس وائرس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اسی وائرس پر چین نے تین مہینے میں قابو پالیا ہے۔ چین کی معیشت دوبارہ پٹری پر آچکی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب چین اور پاکستان کا سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا اور پاکستان مستقبل کی مضبوط معیشتوں میں شامل ہوگا۔