ٹام اینڈ جیری

680

’’سیکرٹری! ٹام اینڈ جیری دیکھتے ہو؟‘‘
’’جی سر،کبھی کبھی‘‘
’’حکومت کا کھیل بھی ٹام اینڈ جیری کی طرح ہے۔ اس کھیل میں بھی ٹام (بلّی) یعنی اسٹیبلشمنٹ اور جیری (چوہا) یعنی سول حکومتیں ہر وقت ایک دوسرے کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔ جیری (چوہا) ٹام کی بُو دور ہی سے سونگھ لیتا ہے۔ پاکستان کے تمام وزرائے اعظم پر بھی ایک وقت آتا ہے جب انہیں ٹام (بلی) کی بُو آنے لگتی ہے۔ جب سے حکومت بنائی ہے حکومت (جیری) اور ٹام (بلی) ایک ہی پیج پر تھے لیکن اب میں محسوس کررہا ہوں ٹام تیسرے فریق سے ملتی جا رہی ہے۔ وزرا بھی جیری کے خلاف ٹام سے سازشیں کررہے ہیں۔
’’سر! کچھ دیر بعد بگ بی آپ سے رابطہ کریں گے‘‘۔
’’کیوں‘‘
’’سر! غالباً بریفنگ‘‘
’’سیکرٹری! میں دوسال میں سو سے زائد بریفنگز بھگت چکا ہوں۔ بریفنگز میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہ لوگ سمجھتے کیوں نہیں، میں سوچنے سمجھنے والا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے 92کا ورلڈ کپ جیتا، اسپتال بنوایا۔ یہ کامیابیاں سوچنے سمجھنے کی وجہ سے حاصل نہیں کیں۔ 2018 کے الیکشن میں کامیابی بھی سوچنے سمجھنے کا نتیجہ نہیں تھی۔ سوچنا سمجھنا وقت کا زیاں ہے۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سوچنے سمجھنے کی وجہ سے نہیں ہے۔ اور میرا خیال ہے بگ بی کے پاس بھی جو کچھ ہے وہ سوچنے سمجھنے کی وجہ سے نہیں۔ وہ بھی سوچنے سمجھنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ میری حکومت بگ بی کے سوچنے سمجھنے کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ 2018 کے الیکشن میں میری کامیابی! کیا سوچنے سمجھنے کا اس سے کچھ لینا دینا ہے۔ میں حکومت کی ابتدا میں سوچنے سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ پورے پورے دن آفس میں فائلیں پڑھتا رہتا تھا۔ لیکن پھر میں نے سوچا کوئی فائدہ نہیں۔ اب میں بغیر پڑھے فائلیں سائن کردیتا ہوں۔ کوئی غلطی ہوگی تو شام کو میڈیا کے ذریعے پتا چل ہی جائے گا۔ ویسے بگ بی کا موڈ کیسا تھا‘‘۔
’’سر! وہ ناراض سے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ عوام میں حکومت کے خلاف غم وغصہ بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے عوام جتنا آج سلیکٹرز کے خلاف باتیں کررہے ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں کیں‘‘۔
’’عوام میری سمجھ میں نہیں آتے۔ وہ میری ہر بات پر یقین کیوں کر لیتے ہیں۔ میری باتوں کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیتے ہیں۔ میڈیا کا بھی یہی حال ہے ادھر میں کچھ کہتا ہوں وہ میرے پرانے ٹیپ چلانا شروع کردیتے ہیں۔ انہیں میری حکومت میں آنے سے پہلے کی باتیں، انٹرویوز اور کنٹینر پر ہونے والی تقریریں نظر انداز کردینی ہوں گی کیونکہ میں جو کچھ آج کہتا ہوں کل یوٹرن لے لیتا ہوں۔ ان لو گوں کو کھلے ذہن سے میرے یو ٹرن کو سمجھنا ہوگا۔ جس دن وہ یہ بات سمجھ گئے میرے ساتھ نا منصفانہ سلوک کرنے سے باز آجائیں گے۔ میں بھی اب میڈیا کو مینج اور کنٹرول کرنے میں بوریت محسوس کرنے لگا ہوں۔ ایک چینل بند کیا۔ دو دن بعد عدلیہ نے کھلوادیا۔ عدلیہ بھی ٹام اینڈ جیری گیم کا حصہ ہے۔ یہ بڑی مایوس کن صورت حال ہے۔ بگ بی کو میرے بارے میں حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ وہ مجھے پکڑ نہیں سکتے کیونکہ میں کسی بھی قول اور فعل پر فوراً ہی یوٹرن لے سکتا ہوں۔ غلطی مجھ میں نہیں ان کے ستاروں میں ہے‘‘۔
’’سر! پچھلے دنوں ایک وزیر کے انٹرویو نے بھی حکومت کا امیج بہت خراب کیا ہے‘‘۔
’’ان سازشی وزرا کو نکال باہر کرنے کا سوچتا ہوں تو پوری کابینہ ہی اڑتی نظر آتی ہے۔ ان کے حلقوں میں عوام انہیں گالیاں دے رہے ہیں، ضلعی انتظامیہ اور پولیس ان کے قابو میں نہیں، جو کچھ یہ وزرا کہہ رہے ہیں، میں جانتا ہوں لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے، مسئلہ ترقیاتی فنڈز کا ہے۔ اس بات کو وہ اس طرح لیتے ہیں جیسے آکسیجن سے محروم ہوں۔ کوئی بھی وزیر اسی صورت میں خلفشار کی باتیں کرتا ہے۔ بعض وزیر جنہیں میں جن سمجھتا تھا۔ وہ بھی بھوت ثابت ہوئے ہیں۔ جن تو درکنار وہ معمولی منتظم بھی ثابت نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود سب میری کاپی کرتے ہیں۔ نہ استعفا دیتے ہیں اور نہ نادم ہوتے ہیں۔ میری طرح انہیں بھی پتا نہیں ہوتا کہ زیرناک کیا ہورہا ہے‘‘۔
’’سر! جن اور بھوت میں کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘
’’بشریٰ بی بی سے پوچھ کر بتائوں گا‘‘
’’سر! بزدار صاحب کا معاملہ دیکھیں، ان کی وجہ سے بھی بگ بی ناراض ہیں‘‘۔
’’بزدار کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔ بزدار ملکی مسئلہ نہیں ہے۔ بزدار میرا گھریلو معاملہ ہے۔ میں بشریٰ کو ناراض نہیں کرسکتا۔ جس طرح بگ بی مجھ پر سایہ فگن ہیں میں بھی ہر وقت بزدار کو اپنے زیر سایہ رکھتا ہوں۔ اس سے زیادہ میں کیا کرسکتا ہوں۔ میرا سایہ جو کچھ باقی ملک کے ساتھ کررہا ہے وہی کچھ پنجاب کے ساتھ کررہا ہے۔ ابھی روٹی کی قیمتوں پر بزدار نے پہلی مرتبہ کسی کو نوٹس دیا ہے۔ خوشی کی وجہ سے مجھے تو یقین نہیں آیاکہ بزدار نے بھی نوٹس لیا ہے۔ وہ بھی نوٹس لے سکتا ہے۔ سنا تھا کہ پنجاب میں نان15روپے، خمیری روٹی 12روپے اور سادی 8روپے کی ہوگئی۔ لیکن بزدار کے نوٹس پر بھی کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ میرے نوٹسزز کی طرح لوگوں نے بزدار کے نوٹس کو بھی گرین سگنل سمجھا‘‘۔
سر! آپ کے لیے ایک خوش خبری ہے آپ کے انڈرٹیکر کورونا سے شفایاب ہوکر گھر واپس آگئے۔ سر جب تک وہ اسپتال میں رہے ریلوے میں کوئی حادثہ نہیںہوا‘‘۔
’’وہ میرا نہیں پنڈی والوں کا انڈر ٹیکر ہے۔ ریلوے کی وزارت تو اضافی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اسے میرے ساتھ کیوں کیا گیا ہے۔ وہ میرے بارے میں انڈر ٹیکر ہی سے رابطے میں رہتے ہیں۔ انڈر ٹیکر کی خوبی یہ ہے کہ وہ وزیراعظم بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ ویسے انڈر ٹیکر باتیں مزے کی کرتا ہے۔ مجھ سے کہہ رہا تھا ’’مندر والے ایشو نے کافی دن قوم کی توجہ مہنگائی سے ادھر ادھر رکھی لیکن اب یہ ایشو دم توڑتا جارہا ہے۔ جعلی پائلٹس کے معاملے نے تو پوری دنیا کی توجہ ادھر ادھر کردی لیکن اب یہ ایشو بھی پھیکا پڑتا جارہا ہے۔ کوئی نیا ایشو سوچنا پڑے گا‘‘ کورونا سے باہر آتے ہی اس نے سب کو مائنس تھری کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا۔ ون یہ ہوگا، ٹو کون ہوگا، تھری کون ہو گا۔ مائنس ون پر سب متفق ہیں کہ وہ میں ہوں، حالانکہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ مجھ سے کیسے چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔ جعلی وزیراعظم کی تیاری میں بھی وقت لگتا ہے۔ سنا ہے بعض حلقے اگلے وزیراعظم کے لیے ملتان کے عذاب اور پختوان خوا کے ڈھانچے کا نام لے رہے ہیں۔ ہا ہا ہا‘‘۔
’’سر! آپ نے ٹام اینڈ جیری کی بات کی تھی۔ ٹام اینڈ جیری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ آپس میں خواہ کتنے ہی دشمن ہوں لیکن تیسرا دشمن مقابل ہو تو وہ باہم متحد ہو جاتے ہیں۔ سر! پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومتوں کے ٹام اینڈ جیری کس تیسری طاقت کے خلاف متحد ہیں‘‘۔
’’عوام‘‘