پرویزہود بھائی کی برطرفی کیوں؟

2812

فورمن کرسچین کالج (ایف سی کالج) پاکستان کے شہر لاہور کا ایک بڑا نجی تعلیمی ادارہ ہے۔ جہاں سے پرویز ہود بھائی کو ان کے اسلام اور پاکستان دشمن خیالات کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا وہ کالج کے طلبہ تعلیم دے رہے تھے کہ ’’دو قومی نظریے کی کو ئی اہمیت نہیں‘ نظریات سے بالاتر ہو کر اور مذہب سے دور رہ کر ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس سے قبل پرویز ہود بھائی کو ان کے انہیں خیالات کی وجہ سے ’’لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس) سے بھی برطرف کر دیا گیا تھا لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ان دونوں اداروں سے پرویز ہود بھائی کی برطرفی میں ان کالجوں کی انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اس کے برعکس دونوں کالجوں کے طلبہ اور طالبات نے ان کے خلاف شکایات کی تھیں کہ موصوف طلبہ اور طالبات کو اسلام ، پاکستان و نظریہ پاکستان کے خلاف لیکچر بڑے سخت الفاظ میں دیتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والے یا ان کے لیکچر کے خلاف بولنے والے طلبہ اور طالبات سے سختی سے پیش آتے اور ان کو یہ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ وہ طاقت ور لابی کے آدمی ہیں ان کو کالج سے نکلوا دیں گے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق دونوں کالجوں کے طلبہ اور طالبات نے نچلی سطح کی انتظامیہ سے ان کی شکایت بھی کی تھی لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی جس کے بعد اعلیٰ سطح پر شکایت اور ان کے لیکچر کو ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا گیا جس کے بعد انکوائری مکمل ہونے کے بعد ان کی اور ان کی ساتھی لیکچرار کی برطرفی عمل میں آئی۔
پرویز ہود بھائی کی برطرفی کے فوری بعد ہمارے چینلز کو ایسا غم لگا جس پر وہ چلا اُٹھے اور ان کو پاکستان کا ہیرو بنانے میں رات دن ایک کرنے میں مصروف ہوگئے۔ میں نے ان کو آدھے درجن سے زائد چینلز میں اپنی صفائی پیش کرتے اور کالج کی انتظامیہ کو غلط ثابت کرتے ہوئے سنا اور دیکھا۔
ہود بھائی کی پہنچ بہت اُوپر تک ہے ان کے ناپاک خیالات کی وجہ سے حکومت اور سیکولر نام نہاد سول سوسائٹی میں ان کا بہت اعلیٰ مقام بنایا گیا تھا۔ موصوف نے تیرہ اقساط پر مبنی اردو زبان میں ایک دستاویزی سیریز کا پاکستان ٹیلی وژن پر آغاز کیا جس کا موضوع پاکستان میں تعلیم کا مسئلہ تھا۔ اس پروگرام میں انہوں نے اسلام، پاکستان اور اسلامی تعلیم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان ٹیلی وژن پر پرویز ہودبھائی نے دو دستاویزی فلمیں سائنس کی اشاعت اور سائنسی سوچ اور طرزِ فکر کے حوالے سے بھی نشر کیں ۔ اس کے علاوہ وہ ملک کے مختلف ایف ایم پر سائنس کی اشاعت اور سائنسی سوچ اور طرزِ اسلام اور اس کے ماننے والوں اور علماء کرام کے بارے میں ان کے منفی خیالات پیش کرتے رہتے ہیں۔ 2004ء میں انہوں نے “Crossing the Lines: Kashmir, pakistan India” کے عنوان سے ڈاکٹر ضیاء میاں کے ساتھ ایک دستاویزی فلم بنائی۔ ہود بھائی کا کہنا ہے کہ ان فلموں کا بنیادی مقصد تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کا حل تلاش کرنا تھا۔ لیکن اصل میں ان فلموں کی مدد سے یہ بتانا تھا کہ ہم کو ترقی کے لیے مذہبی تعلیم کو اپنے نصاب سے الگ کرنا ہوگا تاکہ ان جیسے اسلام اور پاکستان دشمن ہود کی باتوں سے پاکستان کو بھوت بنگلوں میں تبدیل کر دیا جائے۔
اپنی دستاویزی فلموں میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے پاکستان کے دستور میں ختم نبوت کے قوانین، جوہری منصوبوں اور ایٹمی ہتھیاروں پر شدید تنقید کی ہے اور ہر جگہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی دستاویزی فلموں میں یہ دکھایا گیا کہ امریکا اور ناٹو فورسز افغانستان میں افغانوں کی مدد کر رہی ہیں اور انہوں نے افغانستان کی معاشی اور معاشرتی زندگی کے لیے کئی اچھے اقدام کیے ہیں لیکن اس کے برعکس کرپشن اور بغاوت کے عناصر پیدا کیے ہیں جن کا کافی حد تک نقصان پاکستان کو بھی ہوا ہے۔
پرویز ہود بھائی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اس حکمت ِ عملی پر کڑی تنقید کی کہ ایچ ای سی کا مقصد ’’کوالٹی کے بجائے بڑی تعداد بنانا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی پالیسیاں جن کے ذریعے ریسرچ پیپرز کے مصنفین اور پی ایچ ڈی سپروائزرز کو کیش اور پروموشن کے ثمر عطا ہوتے ہیں، درحقیقت پاکستانی یونیورسٹیوں کو اصل معلوماتی اور فائدہ مند ریسرچ پیپرز کی فراہمی کے بجائے ردی پیپرز اور بے کار پی ایچ ڈی پیدا کرنے کی فیکٹریاں بن گئی ہیں۔ 2003ء ہی سے جب ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمن کی سربراہی میں چل رہی تھی، پرویز ہود بھائی نے اس پر تنقید کی اس سلسلے میں پاکستانی نیوز میڈیا پر بھی مختلف گرما گرم مباحثے شروع ہو گئے۔
2009ء میں ایچ ایس سی سے متعلق ڈاکٹر عطاء الرحمن (آرگینک کیمسٹ) اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے معاملات تصادم تک آ پہنچے۔ یہاں تک کہ امریکا کے ایک جرنل Nature نے ایچ ای سی کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ایک جامع مضمون چھاپ دیا۔ پرویز ہود بھائی نے اس آرٹیکل کے خلاف شکایت کی کہ اس میں وہ اصل بات لکھنا ہی بھول گئے جو پرویز ہود بھائی نے بنیادی طور پر کہی تھی کہ ’’کروڑوں روپے بے بنیاد اور فضول میگا پروجیکٹس پر ضائع کیے جارہے ہیں‘‘۔ ایچ ای سی کے ان مباحثوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عادل نجم اور عطاء الرحمن نے ایچ ای سی کی حمایت کی اور ساتھ ہی پرویز ہود بھائی کی تنقید کے چند نکات کو تسلیم بھی کیا۔
پرویز ہود بھائی ایچ ای سی کے سربراہ بننے کے لیے پرویز مشرف کے ِارد گرد کھومتے رہے لیکن پرویز مشرف کو ان کے خیالات کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے ایچ ای سی کا چیئرمین عطا الرحمن کو بنا دیا جس کے بعد پرویز ہود نے ایچ ای سی کی انتظامی قابلیت پر سوال اٹھایا اور ایچ ای سی کی کامرانیوں کو مایوس کن قرار دیا۔ ہود بھائی ایچ ای سی کی افادیت کے خلاف دلائل دیتے ہیں، UESTP-France کے کراچی میں منعقدہ کنونشن کے سلسلے میں شعبے کے 450 تا 600 کے ملازمین میں سے فرانس کا نہ تو کوئی شعبہ نہ ہی انتظامی عملے میں سے کوئی آیا۔ ٹیلی وژن پر مباحثے میں پرویز ہود نے ان شماریات پر سوال اٹھایا جن کی بنیاد پر ایچ ای سی کی سرگرمیوں کو مثبت گردانا جاتا ہے۔ یہ مباحثہ ہود اور ایچ ای سی کے چیئرمین عطا الرحمن کے درمیان ہوا۔
یہ اور ان جیسی بے پر کی باتوں سے ہود بھائی کے بارے میں ان کے خیالات واضح ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دستور میں ختم نبوت، پاکستان اور نظریہ پاکستان اور فوجی بجٹ میں اضافے کے مخالفین کو حکومتی اور میڈیا کی سطح پر بے پناہ پزیرائی اور اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس دستور میں ختم نبوت، پاکستان اور نظریہ پاکستان اور فوجی بجٹ میں اضافے کے حامیوں کو حکومتوں اور بڑی بڑی درس گاہوں اور سرکاری اور نجی چینلز سے دور رکھا جاتا ہے۔