جو خود شکاری ہیں

823

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کورونا کے شکاروں میں شامل ہو گئے ہیں۔ انہیں ملٹری اسپتال راولپنڈی منتقل کردیا گیا ہے۔ انہیں علاج کے لیے وہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ نادار اور بے کس تو ہیں نہیں کہ علاج کے سلسلے میں ان کے ساتھ بھی پاکستانی عوام والا معاملہ کیا جاتا۔ وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندے ہیں جس میں قارون سے زیادہ دولت مند بھی مصیبت زدہ لوگوں کے فقر وفاقہ کے مقابل اپنی آسائشوں کو ترجیح دیتا ہے۔ عدل وانصاف اس نظام کا مزاج نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے حالات اور مرتبے کے مطابق وہ چیز مہیا کی جاتی ہے جس کی انہیں ضرورت ہو۔ اس نظام میں غریبوں اور امیروں کو ایک ترازو میں نہیں تولا جاتا خواہ وہ کورونا جیسی مہلک وبا میں کیوں نہ مبتلا ہوں۔ شاہ محمود قریشی ملتان کی ایک بڑی درگاہ کے سجادہ نشین ہیں۔ لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کل ہر طرف ایک ہی نظام ہے بس انداز مختلف ہیں۔ ایک بزرگ نے اپنے دور کے ایک ظالم حکمران کو وعظ ونصیحت کی۔ حکمران نے کچھ رقم ان بزرگ کودی۔ جو فوراً قبول کرلی گئی۔ ظالم حکمران بولا ’’حضرت ہم سب شکاری ہیں بس جال ذرا مختلف ہیں‘‘۔
کورونا کے مریضوں کوعشق کے مریضوں سے سوا شہرت نصیب ہوئی ہے لیکن دوا کا معاملہ دونوں جانب یکساں ہے۔
جو مریض عشق کے ہیں ان کو شفا ہے کہ نہیں
اے طبیب ان کی بھی دنیا میں دوا ہے کہ نہیں
عشق کی طرح کورونا کی بھی تاحال کوئی دوا دریافت نہیں ہوئی ہے سوائے خود کو قرنطین کرنے کے۔ چین میں کورونا کے آغاز کے ساتھ ہی وہ اودھم مچا، وہ خوف وہراس پھیلا تھا کہ نیرو بھی بانسری بجانا چھوڑ کر قرنطینہ میں چلا جاتا۔ نیرو روم میں لگنے والی آگ سے بے نیاز کھڑکی میں بیٹھا بانسری بجاتا رہتا تھا۔ قریشی صاحب اس درجہ بے حس نہیں وہ کشمیر کی آگ بجھانے کے لیے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو صدا لگاتے رہتے ہیں۔ اللہ انہیں صحت عطا کرے۔ انہیں کچھ ہوگیا تو صدا کون لگائے گا، لیکن یہ کچھ ایسا اہم معاملہ نہیں جس کی فکر کی جائے۔ پاکستان میں جو بھی حکومت لائی جائے گی اس کے وزیر خارجہ کو یہی کام سونپا جائے گا۔ قدیم تہذیبوں کی طرح عہد کورونا بھی ختم ہو جائے گا لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس کے علاوہ بھی کچھ کرنا، کوئی عملی قدم اٹھانا، اس عہد کے ختم ہونے کے امکان نہیں۔ یہاں ’’عہد‘‘ بمعنی ’’وعدہ‘‘ بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ وعدہ کن سے۔ پاکستان میں جو بھی بحیثیت حکمران آتا ہے اسے اندونی اور بیرونی بادشاہ گروں سے کچھ وعدے کرنے پڑتے ہیں۔ ان وعدوں کے ایفا تک ہی اقتدار کی مدت کا انحصار ہوتا ہے جن میں سے ایک بھارت کی علاقائی بالادستی کے اہتمام میں دخل نہ دینا بھی شامل ہے۔ مسئلہ کشمیر کو معلق رکھنا اس کا ضمیمہ ہے۔
عالمی برادری اور اقوام متحدہ کا معاملہ عالم اسلام کے باب میں اس لومڑی جیسا ہے جو خرگوش کی چیخ سنتی ہے تو دوڑ کر اس کے پاس جاتی ہے۔ مدد کے لیے نہیں کھانے کے لیے۔ پھر بھی ان سے ہماری امیدیں! اللہ اللہ۔ اہل مغرب کارویہ ’’ناچنے نکلی تو گھونگھٹ کیسا‘‘ کے ہم محاورہ ہے۔ عالم اسلام کے باب میں انہوں نے کبھی اپنا چہرہ اور عزائم نہیں چھپائے لیکن مغرب سے ہمارے حکمرانوں کی آشنائی اور توقعات کا عالم!!!
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
29جون کو اسٹاک ایکس چینج حملے کی مذمت کرتے ہو ئے شاہ محمود قریشی نے بھارت پر اس حملے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا ’’ہم بھارت کی ہر چال ناکام بنائیں گے اور دنیا کے سامنے اسے بے نقاب کریں گے‘‘۔ دشمن کو بے نقاب کرنا ہر کسی کا حق ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے اعلیٰ حکام بڑی تندہی سے آئے دن بھارت کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے اواخر میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا ’’بھارت کوئی حملہ کرنے والا ہے۔ فالس فلیگ آپریشن کرنے والا ہے‘‘۔ ان ہی دنوں شاہ محمود قریشی نے بھی انکشاف کیا تھا ’’بھارت پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود اپنے سلیپرز سیلز کو متحرک کرسکتا ہے‘‘۔ بیانات میں الفاظ کا چنائو ملاحظہ کیجیے۔ مشکل انگریزی اصطلاحات کے ذریعے پوری کوشش کی گئی ہے کہ بھارت کو بے نقاب کرنے کی بات سمجھ میں نہ آئے۔ وزیراعظم آسان زبان میں یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ بھارت پاکستان پر ایک ایسے حملے کی تیاری کررہا ہے جس میں اسے ذمے دار نہ ٹھیرایا جاسکے۔ وزیر خارجہ کے فرمودہ سلیپرز سیلز کا مطلب غالباً پاکستان میں موجود غیر متحرک بھارتی ایجنٹ ہوگا۔ ہماری حکومتیں ہر بھارتی کارروائی کے بعد ناظم الامور کو بھی طلب کرتی ہیں۔ یہ بھی بھارت کو بے نقاب کرنے کی پاکستانی مہم کا حصہ ہے۔ یہ بے نقابی ایک ایسی ہی مہم ہے جس کی طرف ظفر اقبال نے اشارہ کیا ہے:
اس کی دیوار پہ لکھ آئیں غزل جا کے ظفر
آج کل کچھ اسے رغبت نہیں اخبار سے
اژدھا اپنے شکار کو سالم نگلتا ہے، شیر چبا چبا کر کھاتا ہے، شارک دانتوں سے کاٹ کر کھاتی ہے۔ مسلم ممالک کو اقوام متحدہ قراردادوں کے ذریعے کھاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل ایک ایسا کنواں ہے جہاں مسلمانوں کا چھوٹا سا مسئلہ بھی باون گزا ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ہمارے حکمران اقوام متحدہ کو پکارتے ہیں اور بصد شوق پکارتے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے معاملے میں سیکورٹی کونسل کی مثال اس محبت جیسی ہے جو اندھی ہوتی ہے۔ سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کشمیر کے معاملے میں بھارت کو کیسے روک سکتے ہیں جب کہ وہ خود دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ امریکا بھارت کو کشمیر پر قبضہ جاری رکھنے سے کیسے روک سکتا ہے جب کہ خود امریکا کئی مسلم علاقوں پر قابض ہے۔ یہ امریکا ہی ہے جو اسرائیل اور بھارت کی مسلم علاقوں پر قبضہ جاری رکھنے میں ہر ممکن مدد کررہا ہے۔ یہ امریکا ہی ہے جو مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کو قابض طاقتوں کے خلاف افواج کو حرکت میں لانے سے روکتا ہے۔ روس شام کی سرزمین میں مسلمانوں کے خون کے دریا بہا رہا ہے۔ چین مشرقی ترکستان میں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ اثر رسوخ کم ہو جانے کے باوجود برطانیہ مسلمانوں کے خلاف صدیوں پر محیط اپنے استعماری کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں اور جہاں جہاں مسلمانوں کے خلاف تباہ کن صلیبی منصوبے سامنے آتے ہیں ان میں بھر پور کردار ادا کرتا ہے۔ فرانس نے افریقا میں اپنی سابقہ کالونیوں میں بے دریغ مسلمانوں کا قتل عام اور عصمت دری کی تھی۔ اب معاشی استعماریت کے ذریعے انہیں غربت کے بلیک ہولز میں دھکیل رہا ہے۔ لبرل ازم کا علم بردار ہونے کے ناتے وہ اسلام اور اسلامی عقاید پر جارحانہ ثقافتی حملوں میں مصروف ہے۔ ان کے دربار میں کشمیر کا مسئلہ پیش کرنا اور حل ہونے کی امید رکھنا جو ہمیشہ مسلمانوں کا خون کرتے ہیں، جنہوں نے اس دنیا کو مسلمانوں کا مقتل اور مذبح بنا رکھا ہے، جو صدیوں سے مسلمانوں کو چیرپھاڑ رہے ہیں۔ ایک کھلی حماقت اور مسلمانوں سے بددیا نتی ہے۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران مسلمانوں پر جاری ظلم روکنا چاہتے ہیں تو تمام اندیشوں کو جھٹک کر ایک مرتبہ اپنی زیر کمان لاکھوں مسلم افواج کو حرکت میں لاکر دیکھیں۔ پھر دیکھیںکیا نتائج نکلتے ہیں۔ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا معاملہ عالمی برادری اور سلامتی کونسل کے سامنے پیش کرنا ایک ایسی لاحاصل مشق ہے جس سے کوئی منافق اور مسلمانوں کا غدار ہی نتیجہ خیز ہونے کی امید رکھ سکتا ہے۔ یا پھر ایسے حکمران جو خود مسلمانوں کے شکاری ہوں۔