یہ اقتدار کی جنگ کیوں ہے؟

634

گزشتہ دنوں ہونے والی بارش کی پیش گوئی محکمہ موسمیات کی جانب سے دس روز پہلے ہی کر دی گئی تھی۔ کراچی میں بارش اُس طرح سے نہیں ہوئی جس طرح کی پیش گوئی کی گئی تھی البتہ اس معمولی سی برسات نے ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومت کا بد نما چہرہ بے نقاب کر دیا ہے ساتھ ہی اس ملک کے غریب عوام پر مسلط کے۔ الیکڑک نے بھی کئی کئی دن کی لوڈ شیڈنگ کر کہ لوگوں کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کے الیکڑک وہ بے لگام ادارہ بن چکا ہے جس کو لگام ڈالنے کی پاکستان کی کسی حکومت یا ادارے کے بس کی بات نہیں رہی۔
کورونا کی آڑ میں سیاست کرنے والی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت جو ہر روز انسانی زندگیوں کو بچانے کا درس دیتی رہی چیئر مین پیپلزپارٹی جو معیشت کی تباہی سے زیادہ غریب کی زندگی کو بچانے کے لیے فکر مند دکھائی دیے کہاں ہیں؟ آج جب کراچی کے عوام اسمارٹ لاک ڈائون کی وجہ سے بے روزگاری معاشی مشکلات کا شکار ہیں تو دوسری جانب کے الیکڑک نے کراچی کے عوام کو غیر ضروری طویل لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا اور من مانے اضافی بجلی کے بل تھاما کران کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ ہو، پینے کے صاف پانی کا معاملہ ہو، لاپتا افراد کا معاملہ ہو، لوڈشیڈنگ کا معاملہ ہو یا جعلی پولیس مقابلوں کا معاملہ ہو ہر معاملے پر عدالتوں نے ازخود نوٹس لے کر حکم جاری کیے مگر بدقسمتی سے اس وقت تک ان تمام معاملات میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ عدالت تو عوامی مسائل کے حل پر اپنے فیصلے دیتی رہی مگر نااہل کرپٹ سیاستدان اپنے ہی ملک کی عدالتوں کے حکم کی دھجیاں اُڑاتے رہے ہیں بد قسمتی سے اس ملک کا عدالتی نظام بھی ایک پیج پر نہیں ہے ایک عدالت سزا سناتی ہے تو دوسری عدالت بری کر دیتی ہے اس لیے نااہل کرپٹ افراد مزید مضبوط ہوتے ہیں۔
اس وقت ملک معاشی سیاسی بحران کی زد میں ہے اور لمحہ فکر تو یہ ہے کہ عوامی مسائل پر تماشا کرنے والوں کو آج عوام کے مسائل کا درد ستا رہا ہے وہ بھی اس لیے کہ ان پر چلنے والے کرپشن کے مقدمات کا رخ موڑ دیا جائے۔ پیپلز پارٹی ن لیگ جو اس وقت اپنے لیڈروں پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کو سیاسی انتقام ثابت کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں مریم نواز کی مسلسل خاموشی یہ ثابت کر چکی ہے کہ ن لیگ اس وقت خطرے میں ہے پیپلزپارٹی کی قیادت جو کبھی سندھ تو کبھی پنجاب فتح کرنے کے دعوے کرتی ہے آج عزیر بلوچ کی جی آئی ٹی سامنے آنے کے بعد یقینا اپنے بیانیے میں لچک کا مظاہر کرے گی۔
ملک میں علاج، تعلیم، بے روزگاری کا بحران بڑھتا چلا جارہا ہے بدقسمتی سے ہماری پارلیمنٹ میں جملے بازیوں کا ایک شرم ناک بازار لگا ہے جس میں ضرورت سے زیادہ نازیبا زبان کا بھر پور استعمال تو کیا جاتا ہے اور عوامی مسائل نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ جس پارلیمنٹ میں محترمہ شہید اور میاں صاحب کو ان کے مخالف نازیبا زبان سے نوازتے رہے اُس پارلیمنٹ کے ماحول کو موجودہ اپوزیشن کی دونوں جماعتیں بہتر نہیں بنا سکی۔ تو پھر ایسے لوگوں سے کیسے ملک اور اس کے اداروں کا نظام بہتر بنانے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ یقینا اس وقت کی موجود حکومت میں ہزار خامیاں موجود ہیں ان کے نئے نئے وزیر مشیروں کی کار کردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں خان صاحب کی جماعت میں سنجیدہ سیاست کا بڑا فقدان ہے جس پر خان صاحب کو کام کرنا ہوگا۔ اگر ن لیگ پیپلزپارٹی کو 35 سال اس ملک پر حکمرانی کا موقع ملا ہے تو ہمیں ملک و قوم کے بہتر مفاد میں سنجیدہ مثبت سیاست کا مظاہر کرتے ہوئے پہلی بار اقتدار میں آئی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے یقینا ہم سب انسان ہیں فرشتے نہیں ہیں جو ہم سے غلطیاں سرزد نہ ہوں البتہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پاس بڑا بہترین موقع ہے کہ وہ احتساب کے اس عمل میں اپنی جماعتوں کے اندار موجود کرپٹ نااہل کالی بھیڑوں کا خاتمہ کر کے نئے طریقے سے اپنی جماعتوں کو منظم کریں ملک و قوم کے بہتر مفاد میں یہ ضروری نہیں کہ لیڈر نواز شریف یا زرداری ہی ہوں قوموں کی تقدیر چہروں سے منسلک رکھنے کی روش کا اب خاتمہ ہونا چاہیے اس ملک و قوم کو صادق و امین باصلاحیت محب وطن جن کا جینا مرنا اپنے ملک کی سرزمین پر ہو ایسے جانباز لیڈرکی ضرورت ہے۔ یہ اس ملک وقوم کی بد بختی رہی ہے کہ سیاستدانوں سے لے کر جج جنرل تک آخر میں اپنی پاک زمین کو چھوڑ کر بیرون ملک آباد ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک بیرونی سازشوں کی گرفت میں مبتلا رہتا ہے اب ہمیں اس روایت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ملک کو ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی یہ اقتدار سدا کسی کا نہیں ہے آج خان صاحب تو کل ن لیگ پیپلزپارٹی کا بھی ہوسکتا ہے تو پھر لڑائی کیسی اگر بعد میں ہم نے ہی اس کو آگے بڑھنا ہے تو پھر کوشش آج سے شروع کی جائے حکومت اور اپوزیشن کی جنگ سے نکل کر ملک و قوم کو معیشت کی جنگ سے نکلا جائے تاکہ ہم مستقبل میں مزید مشکلات سے محفوظ رہے کر ترقی وخوشحالی کی جانب تیزی سے گامزن ہوسکیں ہمیں اقتدار کی جنگ سے نکل کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل پر یکجہتی کا مظاہر کرنا ہوگا۔