اسٹاک مارکیٹ، عسکری اور معاشی دہشت گردی

775

کراچی میں 29جون کو سیکورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کی عمارت پر حملہ کرنے والے چاروں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا اس دوران فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار اور 3 سیکورٹی گارڈ شہید ہوئے۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے سوشل میڈیا کے ذریعے حملے کی ذمے داری قبول کی لیکن اس طرح کا واقعہ بھارتی ایجنسی ’را‘ کی فرسٹریشن کو ظاہر کرتا ہے اور یہ کسی غیر ملکی دشمن ایجنسی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیکورٹی گارڈز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوشش سے تمام حملہ آور مارے گئے۔
یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ بھارت پاکستان میں ہر اس جگہ پر حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے جہاں پر ’’پاکستان‘‘ لکھا ہے اور ایسے کسی ہاتھ کو کسی بازو پر رہنے کا حق نہیں جو پاکستان کی جانب اُٹھے۔ شہید بہادر سیکورٹی گارڈز اور پولیس اہلکاروں اور کی تعریف بھی ہونی چاہیے اور ان کی مالی امداد اسٹاک مارکیٹ اور حکومت کے جانب بھی ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ کو عسکری اور معاشی دہشت گردی سے محفوظ بنایا جائے۔
اسٹاک مارکیٹ میں دہشت گردی کی ناکامی اور کے بعد تحقیق اور کمیٹی کا قیام بہت ضروری تھا جس پر حکومت نے فوری فیصلہ کیا لیکن اسٹاک مارکیٹ میں معاشی دہشت گردی پر حکومت کی توجہ نہیں ہوتی، اس لیے ضروری ہے کہ اس جانب بھی توجہ مرکوز کی جائے۔ برسوں سے ہماری اسٹاک ایکسچینج چند لوگوں کے خیالات کے مطابق چلتی ہے کہ وہ معیشت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیا رائے رکھتے ہیں، اس کے برعکس دنیا بھر کی اسٹاکس مارکیٹوں میں سرمایہ کار منافع کما رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹ کو ایک عام مارکیٹ کی مانند چلایا جارہا ہے۔ امریکا، بھارت کی بات کریں تو ان کی اسٹاک ایکسچینج میں متوسط طبقے کے سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اسٹاک ایکسچینج کے معاملات میں بڑے ایکٹیو ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ملک میں جب بھی سرمایہ کاری کی بات آتی ہے تو پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت سونے، رئیل اسٹیٹ اور کبھی کبھار زرِمبادلہ میں سرمایہ کاری کے بارے میں سوچنے لگتی ہے۔ بہت ہی کم ایسے ہوتے ہیں جو اسٹاکس مارکیٹوں میں اپنا پیسہ لگانے کی جرأت کر پاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسٹاک مارکیٹیں طویل دورانیے کے لیے بہترین سرمایہ کاری ہے جو آپ کی ذاتی دولت میں اضافے کے کچھ بہترین مواقع بھی پیش کرتی ہے۔ اگر بچت کا مقصد آپ کی موجودہ آمدنیوں کو مستقبل میں خرچ کرنے کے قابل بنانا ہے، تو سرمایہ کاری کا مقصد یہ یقینی بنانے کے لیے ہوتا ہے کہ آپ کی بچت کی ہوئی رقم کی قدر مہنگائی سے کم نہیں ہوگی۔ گزشتہ 10سے 20سال قبل عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد اسٹاکس مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی نظر آتی تھی لیکن اسٹاک مارکیٹ کے سٹے بازوں نے متوسط طبقے کے سرمایہ کاروں کی بہت بڑی تعداد کو اپنے سٹے بازی سے مار بھگایا اور آج اسٹاک مارکیٹ میں متوسط، چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے ایک خوفناک خواب بن چکا ہے۔
پاکستان کے بازارِ حصص کے بارے میں اکثر رپورٹ کیا جاتا ہے کہ باقی دنیا میں اگر مندا چل رہا ہے تو یہاں تیزی کا رجحان ہو گا اور باقی دنیا میں ہونے والے واقعات یا اہم اعلانات کا یہاں زیادہ اثر نہیں لیا جاتا۔ اس کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان میں اسٹاک ایکسچینج بروکرز کی مرضی کے مطابق چلتی ہے۔ اس وقت بازارِ حصص میں ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ کے قریب سرمایہ کار ہیں جن میں سے 40 سے 50 فی صد ہی باقاعدہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں۔
’بازارِ حصص کے بارے میں عام طور دیکھا جاتا ہے کہ یہ کسی اقتصادی اشاروں پر نہیں چلتی بلکہ اس کو بڑے ادارے اور بروکرز کنٹرول کرتے ہیں بالکل کیسینو کی طرح اس کو چلاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ مقامی طور ہونے والی کسی پیش رفت کا اثر پڑتا ہے جیسا کہ سعودی عرب سے امدادی پیکیج آئی ایم ایف سے قرض اور عالمی مالیاتی اداروں جن میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے امداد ملنے کے بعد تیزی آجاتی ہے۔
نواز حکومت کے دور میں اسٹاک مارکیٹس کا انڈیکس 50ہزار بھی بلند ہو گیا تھا۔ مارچ 2017 کو حاصل کردہ اپنی بلند ترین 52876.46 پوائنٹس کی سطح پر پہنچ چکا تھا اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال میں بہتری آرہی تھی سال 2019 کے دوران سرمایہ کاروں نے نشیب و فراز سے گزرتے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری پر مجموعی طور پر 10 فی صد نفع حاصل کیا۔ اس دوران ایکسچینج میں مختلف شعبوں سے وابستہ کاروباروں پر اعتماد بھی کسی حد تک بحال ہو گیا۔ ریسرچ ہائوسز کو توقعات تھی 2020 میں شیئر مارکیٹ مزید بہتری کی جانب گامزن رہے گی اور اس ضمن میں حیران کن موڑ بھی مشاہدے میں آسکتے ہیں۔
مارچ 2020ء میں کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا ہنڈریڈ انڈیکس 5 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا شدید مندی کے بادل مزید گہرے ہوتے جارہے تھے، 19مارچ 2020ء کو طویل لاک ڈاؤن کے بعدکاروباری سرگرمیوں کا آغاز ہوا تو کے ایس ای ہنڈریڈ انڈیکس 30 ہزار 416 کی سطح پر موجود تھا۔ کاروبار کے آغاز کے ساتھ ہی مارکیٹ کریش ہوگئی، ہنڈریڈ انڈیکس میں ایک ہزار 752 پوائنٹس کی کمی ہونے پر کاروبار معطل کردیا گیا۔ کاروبار دوبارہ شروع ہونے کے بعد بھی انڈیکس میں مسلسل اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 4 کاروباری دنوں میں ہنڈریڈ انڈیکس میں 7 ہزار 200 سے زائد پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے۔ انڈیکس 5 سال کی کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے مارچ 2020ء سے قبل کیا مارکیٹ کی صورتحال بہتر تھی؟ عالمی مارکیٹوں میں یوروبانڈ اور سکوک کا متوقع اجرا اور سرکاری ملکیتی اداروں کی نجکاری سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو وہ سہارا ملے گا جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔2019 کے دوران پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بدترین سے بہترین مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی اور کے ایس ای100 انڈیکس 3668 پوائنٹس بڑھ کر 40735پوائنٹس کی سطح پر آگیا جس کے نتیجے میں حصص کی مالیت میں بھی مجموعی طور پر 1 کھرب 19ارب 2 کروڑ 58 لاکھ 61 ہزار 809 روپے کا اضافہ ہوا۔
2019 کے آغاز پر خراب معاشی صورتحال کے باعث جنوری 2019 سے اگست 2019 تک انڈیکس 8 ہزار 302 پوائنٹس گرگیا تھا جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے 1777 ارب روپے ڈوب گئے تھے۔ ایک وقت میں پی ایس ایکس کا شمار دنیا کی بدترین مارکیٹوں میں ہونے لگا تھا اور اگست 2019 میں اسٹاک مارکیٹ سال کم ترین سطح 28 ہزار 764 پر آگئی تھی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالرز کی منظوری کے بعد معیشت کو سہارا ملا اور اسی سال پاکستان اسٹاک ایکس چینج دنیاکی بہترین مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ بدتر سے بہتر ہونے توقع ہے لیکن اس کے اسٹاک مارکیٹ سے سٹے بازوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ مارکیٹ میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ متوسط طبقہ آسانی سے سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہو جائے اس سے عوام کے لیے روزگار کے نئے موقع پیدا ہوں گے۔ ہمارے ملک میں ہر سال بہت بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین سبکدوش ہوتے ہیں اور یہ سب اپنے واجبات کی ملنے والی رقم سے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کی اکثریت بینکوں کی مختلف اسکیموں میں سرمایہ کرتے ہے لیکن بینکوں میں سود کی کسی نہ کسی صورت میں موجودگی سرکاری سبکدوش ملازمین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے وہ اپنے سرمائے کو کسی ایسی جگہ لگائیں جہاں سود کا گزر نہ ہو لیکن اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ ڈوبنے کے خدشے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے۔ ماضی میں ہزاروں سبکدوش سرکاری ملازمین نے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی تھی لیکن سب کا سب ڈوب گیا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو آسان اور محفوظ کیا جائے۔ اور اسٹاک مارکیٹ کو عسکری اور معاشی دہشت سے محفوظ بنایا جائے۔