بجٹ 22 کروڑ عوام کونا منظور حکمرانوں کو منظور ہے،سراج الحق

205

لاہور (نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے بجٹ کی منظوری پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اسمبلی سے بجٹ پاس کرانا حکومت کی نہیں آئی ایم ایف کی کامیابی ہے ۔بجٹ 22کروڑ عوام کو نامنظور اور حکمرانوں کو منظور ہے ۔حکومت نے غیر حقیقی معاشی اعشاریے بیان کرکے عوام پر مہنگائی کا کوڑا برسا دیا ہے ۔بجٹ پاس ہونے کے بعد اب عوام مہنگائی اور بے روز گاری کے سونامی کا شکار ہوجائیں گے ۔عوام کے لیے بجٹ میں سوائے پریشانیوں کے او ر کچھ نہیں ،جی ڈی پی کا 40فیصد آئی ایم ایف کے قرضوں کے سود کی ادائیگی میں چلاجائے گا۔تعلیم ،صحت اور ترقیاتی کاموں کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے ۔ بجٹ نے کورونا کے مارے عوام کے مسائل کو دوچند کردیا ہے ۔دریں اثنا سینیٹر سراج الحق نے منصورہ میں جے آئی کسان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے سیاست کو سازشوں اور الزامات کا کھیل بنا دیا ہے ۔حکمران عدم برداشت اور غصے و نفرت کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔کورننس میں بہتری لانے کے دعویداروں نے عوام کے دکھوں میں اضافہ کردیا ہے۔ غیر سیاسی اور غیر منتخب
لوگوں نے حکومت کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔حکومت بدترین گورننس کا نمونہ ہے ،پی ٹی آئی نے اپنا منشور اور عوام سے کیے گئے تمام وعدے بھلادیے ہیں۔2سال کے بعد بھی حکومت کی کوئی سمت ہے اور نہ منزل ۔عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش پوری ہوگئی ،عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔زراعت کی ترقی کے بغیر ملکی معیشت میں بہتری نہیں آسکتی۔جب تک کسانوں کو کھیت اور مزدوروں کو کارخانے کی پیداوار میں شامل نہیں کیا جاتا کسانوں اور مزدوروں کے دن نہیں پھر سکتے ۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غریبوں کامعاشی استحصال ملک کی ترقی اور خوشحالی میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں زراعت کی بہتری اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔کسان اس لیے بھوکا سونے پر مجبور ہے کہ ملک میں جاگیرداری کا ظالمانہ نظام مسلط ہے ،اس نظام نے 73سال سے پاکستان کی زراعت کو جکڑ رکھا ہے ۔زمین چند خاندانوں اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے ۔کسان اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود اپنے بچوں کو پیٹ بھر کا کھلا سکتا ہے اور نہ انہیں پڑھا سکتا ہے ۔لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور وہ سارا ٹیکس جاگیر داروں اور کارخانہ داروں کی عیاشیوں پر خرچ ہوجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ عوام سے 42 قسم کا ٹیکس لیا جارہا ہے ۔ظلم یہ ہے کہ جو ٹیکس صابن بنانے والے کارخانے کے چوکیدار سے لیا جاتا ہے وہی اس کارخانے کے مالک سے بھی لیا جاتا ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ وزیر اعظم کبھی کسی سے اور کبھی کسی سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا جائے مگر انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت اور معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ بنجر زمینوں کو آباد کیا جائے اور حکومت بنجر زمینوں کی آباد کاری کے لیے کسانوں کو بلاسود قرضے ، زرعی مشینری ،کھاد اور بیج دے ۔جب زمین آباد ہوجائے تو اسے آباد کرنے والے کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ کاشت کاری کرکے ملکی پیداوار میں اضافہ کرے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے ۔انہوں نے کہا کہ جاگیر داری نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔زرعی مقاصد کے لیے بلاسود قرضے دینے کے لیے بینک قائم کیا جائے ۔پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔پانی ذخیرہ کرکے ناصرف زمینوںکو سیراب کیا جاسکتا ہے بلکہ بجلی پیدا کرکے توانائی کی ضروریات کو بھی پورا کیا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 12ہزار ارب روپے کا پانی ہرسال ضائع ہوجاتا ہے جبکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کی بدترین کمی کا شکار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جے آئی کسان اضلاع کی سطح پر کسانوں کے سیمینار ز اور جلسے کرکے کسانوںکے مسائل کے حل کے لیے بھرپور تحریک چلائے گی۔اس موقع پر سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور نائب امیرمیاں محمد اسلم بھی موجود تھے ۔