ڈی چوک سے بیچ چوراہے تک

949

ہم ایسے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بہر لحاظ ایک دوسرے سے اس حد تک مختلف الخیال ہیں کہ ان کو کسی طور ایک قوم نہیں کہا جا سکتا۔ چین میں رہنے والے سب چینی کہلاتے ہیں، جاپان والے جاپانی، ایران والے ایرانی، مصر والے مصری تو ترکی والے ترکی۔ دنیا شاید افغانستان والوں کو افغانی، بھارت والوں کو بھارتی اور پاکستان والوں کو پاکستانی پکارتی بھی ہو اور سمجھتی بھی ہو لیکن کوئی ایک فرد بھی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ افغانستان والے، بھارت والے یا پاکستان والے واقعی سب کے سب افغانی، بھارتی اور پاکستانی ہی ہیں۔
پاکستان میں کم از کم درجن بھر انسانی گروہ مستند الگ الگ قومیتیں ہیں جو مسلمان ہونے کے با وجود علاقائی اور لسانی بنیادوں پر اپنی پہلی پہچان مشکل ہی سے ’’مسلمان‘‘ بتانا پسند کرتے ہیں۔ معاملہ خوشی کا ہو، غم کا یا ماحول کے بہت زیادہ تلخ ہوجانے کا، ہر تہذیب والا نہایت فخر و غرور کے ساتھ یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے وہ ’’فلاں ابنِ فلاں‘‘ ہے۔ اکثر اوقات ہر گروہ کو اپنے بر تر ہونے کا دعویٰ اسے وہاں تک بھی لیجاتا ہے جہاں دوسرے کا خون اسے پانی لگنے لگتا ہے۔
ان تمام تر شدید اختلافات کے باوجود ایک چیز حیرت انگیز طور پر پاکستان کی ہر لسانی اور علاقائی اکائی میں مشترک ہے اور وہ ہے ’’بی جمالو‘‘ کی صفت۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والا ہر فرد، پارٹی، گروہ اور ادارہ، خواہ کتناہی نیک، صالح، دیانتدار، ایماندار اور عبادت گزار ہی کیوں نہ ہو، اس صفت میں اتنا مالامال ہے کہ رات دن اس مال و دولت کو بے اندازہ خرچ کیے جانے کے باوجود بھی اس کے خزانے میں ذرہ برابر بھی کمی آ کر نہیں دیتی۔
’’بی جمالو‘‘ کی سب سی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہایت چالاکی کے ساتھ بھس میں چنگاری ڈال کر الگ کھڑی ہو جایا کرتی ہے۔ کسی کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ بھس کے ڈھیر کے قریب سے کیا کر گزری ہے۔ بھس میں ڈالی گئی چند چنگاریوں کو ہوا کے جھونکے شعلہ جوالہ بنا دیتے ہیں اور پھر وہی آگ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ بستیاں کی بستیاں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں اور کسی کو اصل بی جمالو کا علم ہی نہیں ہو پاتا بلکہ تمام متاثرین، جو پہلے ہی ایک دوسرے سے کٹے پھٹے ہوتے ہیں، ساری تباہی و بربادی کا الزام ایک دوسرے کے سر تھوپنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
پاکستان بنانے والوں نے پاکستان بناتو لیا لیکن ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے دلوں کو آپس میں جوڑنے میں آج تک کامیاب نہ ہو سکے اور اتحاد و اتفاق کے بجائے انتشار و افتراق کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اس افتراق و انتشار کی بڑھوتری میں کوئی بھی ایک کسی سے پیچھے نظر ہی نہیں آتا، فرد سے لیکر جماعت تک، رعایا سے لیکر حاکموں تک اور با اختیار اداروں سے لیکر کمزور ترین محکموں تک، سارے کے سارے بی جمالو کا اعلیٰ کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان ترقی کے بجائے مسلسل تنزلی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔
پاکستان میں ’’بی جمالو‘‘ کہاں نہیں پائی جاتیں۔ ہر گھر، ہر محلہ، ہر بستی، ہر شہر، ہر صوبہ، ہر گروہ، ہر جماعت اور ہر ادارہ ایک دوسرے کے بھس میں چنگاریاں بھرتا ہوا صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان بن جانے کے فوراً بعد دھوتیوں کی طرح وزارتوں کا بدلا جانا، پھر مارشل لائی دور سے بھی خود مارشل لا والوں کا غیر مطمئن ہونا، سیاسی پارٹیوں کے اندر اختلافات کے بیج بو کر ان میں چیرا پھاڑی کرنا، کئی پارٹیوں کے مہروں کو یکجا کرکے کوئی نئی پارٹی بنانا، ریت کے گھرندوں کی طرح انہیں لات مار کے توڑ دینا، پھر ’’بھان متی‘‘ کی طرح کنبہ جوڑنے بیٹھ جانے جیسا عمل پاکستان بننے سے لیکر تا حال اتنی بری طرح جاری و ساری ہے کہ اب یہ نہ ختم ہوجانے والے کھیل کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ڈی چوک میں بھی بی جمالو نے نجانے کتنے بھسوں میں چنگاریاں ڈال کر گروہ در گروہ ایک دوسرے سے بدظن کر کے رکھ دیے اور بھان متی کو موقع دیا کہ وہ کہیں سے اینٹیں لے اور کہیں سے روڑھے جمع کرکے ایک نیا کنبہ بنائے۔ کنبہ بھی بن گیا اور تختِ شاہی بھی ہاتھ آ گیا لیکن زہریلے دودھ کو جتنا بھی پھینٹا جائے، مکھن اور بھی زہریلا حاصل ہوتا ہے۔ پھینٹائی کے نتیجے میں مکھن تو بہت حاصل ہوا لیکن اس کے زہر کا اندازہ نہ تو پھینٹے والوں کو ہو سکا اور نہ ہی ’’شاہ‘‘ کو۔ آستینوں کے سانپوں نے ایسا ڈسا کہ ’’شاہ‘‘ سمیت پورے پاکستان کا رنگ نیلا پڑنے لگا۔
وہی ساری ہانڈیاں جو ’’ڈی چوک‘‘ پر جمع کر کے نئے پکوانوں کے طور پر عوام کے لیے پکائی گئی تھیں اب ’’بیچ چوراہے‘‘ پر ایک ایک کرکے پھوٹتی نظر آ رہی ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
جو جلاتا ہے کسی کو خود بھی جلتا ہے ضرور
شمع بھی جلتی رہی پروانہ جل جانے کے بعد
اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ جلنے جلانے کا یہ عمل کہیں جاکر رکتا بھی ہے یا جو کچھ بھی مال اسباب بچ گیا ہے وہ بھی ان ہی ’’بی جمالیوں‘‘ کی نذر ہو کر رہ جائے گا۔ یاد رہے کہ ’’چور‘‘ (بی جمالو) بے شک چوری سے تائب ضرور ہو جاتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے کبھی باز نہیں آ سکتا۔