آپریشن بلو اسٹار ،بھارتی سکھوں کا زخم تازہ ہے

921

بھارت کے اخبار انڈیا ٹوڈے کی لندن کی نامہ نگار نے اطلاع دی تھی کہ ہیلوک روڈ ساوتھ ہال برطانیہ میں سکھوں کے سب سے بڑے گوردوارے’’ گورو سری نگھ سبھا ‘‘کے باہرسکھ مذہب کے پانچویں گوروارجن دیو کے ساتھ خالصتان نواز مقتول لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قدآدم تصویر نصب کر دی ہے۔نامہ نگار نے اس صورت حال پر ایک جملے کی صورت اپنی ناگواری کا اظہار یوں کیا تھا کہ ارجن دیو نے سکھ مذہب کے لیے جان دی جبکہ بھنڈرانوالہ پر سکھوں کے نام پر لوگوں کی جانیں لینے کا الزام ہے ۔اخبار کے مطابق اسی گوردوارے میں خالصتان کے لوگو والی جیکٹس پہنے لوگ کورونا بحران کے دوران مستحق عوام میں امدادی پیکٹ تقسیم کرتے رہے۔ برطانیہ میں ــ’’ریفرنڈم خالصتان 2020‘‘ کی زوردار مہم بھی کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔یہ جون کا پہلا ہفتہ ہے اور یہ مہینہ اور ہفتہ ہرسال دنیا بھر میں پھیلے سکھوں کے برسوں پرانے زخم تازہ کرجاتا ہے۔1984کا سال سکھوں کے قومی حافظے کے ساتھ مستقل طور پر چپک کر رہ گیا ہے جب بھارتی حکومت اور ریاست نے آزاد وطن کے لیے سکھوں کی مقبول تحریک کو دربار صاحب امرتسر میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے کچل کر رکھ دیا تھا۔اس تحریک میں آئیکون کی حیثیت رکھنے والے نوجوان سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی اس خونیں آپریشن میں کام آئے تھے ۔بھنڈرانوالہ کاظہور سکھوں میں اس احساس زیاں کا نتیجہ تھا جس نے آزادی ہند کے وقت سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کی طرف سے کانگریس کا ساتھ دینے سے جنم لیا تھا ۔ماسٹر تارا سنگھ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے باربار سمجھانے کے باجود اپنا وزن کانگریس کے پلڑے میں ڈالا اور یوں پنجاب تقسیم بھی ہو گیا اور اس تقسیم نے بدترین فسادات کی بنیاد بھی رکھی ۔آزادی کے بعد نئی دہلی کے سلوک نے سکھوں کی نئی نسل کو یہ باورکرایاکہ ان کی قیادت کا فیصلہ قطعی غلط اور مصلحت پسندی پر مبنی تھا ۔اسی احساسِ زیاں نے سکھ نوجوانوں کوانقلابی راستوں کی جانب مائل کیا ۔شعلہ بیاں بھنڈرانوالہ نے اپنی تقریروں سے پنجاب کے کھیت وکھلیان میں آگ سی لگا دی۔پہلے پہل اندرگاندھی نے سکھ نوجوانوں کی اس تحریک کو پنجاب میں اپنی حریف سیاسی جماعت اکالی دل کو سیاسی نقصان پہنچنے کی امید پر حالات سے نظریں چرائے رکھیں جب انہیں یہ اندازہ ہوا کہ سکھ نوجوان وقتی سیاسی مقاصد کے بجائے خالصتان کو ایک نظریے کے طور پر اپنا چکے ہیں تو بھارتی حکمرانوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوںنے اس تحریک کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ۔بھنڈرانوالہ نے سکھوں کے سب سے متبرک مقام دربار صاحب امرتسر میں مورچہ لگالیا اور وہیں سے خالصتان تحریک کا پرچار کر نے لگے ۔اندر اگاندھی نے دربار صاحب کو بھنڈرانوالہ سے چھڑانے کے لئے آپریشن بلو اسٹارکے نام سے فوجی آپریشن کی منظوری دی اور جون کے پہلے ہفتے سے بھارتی فوج نے ٹینکوں اور بکتر گاڑیوں سے دربار صاحب کا محاصرہ کر لیا ۔یہاں تک کہ سات جون کی شب بھارتی فوج نے دربار صاحب کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
اس آپریشن میں بھنڈرانوالہ سمیت خالصتان تحریک کی اعلیٰ قیادت ماردی گئی جبکہ سیکڑوں عام لوگ بھی مارے گئے ۔اس آپریشن کے خلاف احتجاج کے طور سکھوں نے فوج اور پولیس اور بیوروکریسی سے استعفے دیے ۔سابق سکھ فوجیوں نے اپنے تمغے اور خطاب واپس کیے اور یوں سکھوں نے ریاست کے اس اقدام کو اجتماعی طور پر مسترد کر دیا ۔چار ماہ بعد دو سکھ محافظوں نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو قتل کر دیا اور یوں سکھوں پر ایک اور قیامت برپا ہوئی ۔اس واقعے کے ردعمل میںہندوئوں نے ہزاروں سکھوں کو بے دردی سے قتل کر دیا ۔اس کے بعد سے خالصتان تحریک پنجاب کے میدانوں سے یورپ اور امریکہ تک پھیل گئی ۔ اب عالم یہ ہے کہ آپریشن بلو اسٹار سکھوں کے سینے کا ایسا زخم ہے جسے وہ تروتازہ رکھنا چاہتے ہیں ۔وہ اس سانحے کو نسل درنسل تازہ اور زندہ رکھنے کی حکمت عملی اپنا ئے ہوئے ہیں۔
جب خالصتان تحریک پر اندراگا ندھی نے آپریشن بلو اسٹار کے ذریعے فیصلہ کن وار کیا تھا تو یہ ہمارے کالج کا زمانہ تھا ۔بی بی سی اس آپریشن کی خبروں کو نمک مرچ لگا کر سنا رہا تھا ۔عین انہی دنوں جنرل ضیاء الحق نے طلبہ کی یونین سازی پر پابندی عاید کی تھی جس کے ردعمل میں ملک بھر میں ایک زوردار تحریک چل رہی تھی ۔حکومت اس تحریک کو پکڑ دھکڑ کے ذریعے دبارہی تھی اور بی بی سی اس طلبہ تحریک کی بھرپور کوریج کر رہا تھا اس لیے طلبہ تحریک کی خبروں کی وجہ سے خالصتان تحریک کی خبریں بھی سننا پڑتی تھیں ۔عمومی تاثر یہی تھا کہ آپریشن کے نتیجے میں سکھ تحریک کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ۔یہ رائے اس وقت بدلی جب آپریشن بلواسٹار کے چودہ برس بعد1998میںبطور اخبارنویس برطانوی ہائی کمیشن کی دعوت پر پہلی باروہاں جانے کا موقع ملا ۔ایک روز برمنگھم میں ہمیں سکھوں کے عالمی اجتماع میں شرکت کی دعوت ملی ۔یہ اجتماع برمنگھم کے نواح میں ایک وسیع وعریض گوردوارے میں ہورہا تھا ۔یہاں ایک میلے کا سماں تھا اور صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک تصویری نمائش دیکھنے کو ملی جس میں آپریشن بلو اسٹار میں مارے جانے والے سکھ گوریلوں کی تصویروں تھیں ۔تھوڑا آگے چل کر بھارتی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے سکھ مردوخواتین کی تصویری نمائش تھی ۔اسی طرح اس میلے پر خالصتان کا رنگ نمایاں تھا ۔جوتے اتارنے کے بعد ہم گوردوارے میں داخل ہوئے تو مخصوص کپڑوں سے ہمارے سر ڈھانپ دیے گئے اور اسٹیج کے قریب بٹھا دیا گیا۔ پرشاد کے نام سے ایک بڑے تھال میں حلوہ نما کوئی مٹھائی پیش کی گئی مگر ہم نے معذرت کر لی ۔ اس دوران اسٹیج پر کارروائی جاری رہی۔ کینیڈا، امریکا، افریقا، یورپ سے آئے ہوئے سکھ خاندانوں کے بچے ٹولیوں کی صورت میں آتے اور رزمیہ اور المیہ گیت گاتے پرجوش تقریریں کرتے جن میں بھارتی مظالم اور خالصتان کی بات نمایاں ہوتی ۔قریب بیٹھے ایک عمر رسیدہ سکھ سے میں نے کہا کہ بچوں کی پرفارمنس بہت اچھی ہے تو اس کا جواب تھا بھائی جی یہ طویل لڑائی ہے ہم اس کا شعو ر اگلی نسل کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔بہت مختصر مگر معنی خیز جملہ تھا۔
اس بات کو بھی بائیس سال کا عرصہ گزر گیا۔اس بار یوں لگا کہ بیرونی دنیا میں بسنے والے خالصتانی اپنے نظریات کا بیج واپس پنجاب میں بونے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ امسال چھ جون کوعین آپریشن کی رات گولڈن ٹیمپل میں اکال تخت کے نیچے خالصتان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔جس پر گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے ارکان نے ان نعروں کا دفاع کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ ان نعروں میں کیا برا ہے اگر بھارتی حکومت ہمیں خالصتان کی پیشکش کرتی ہے توہم قبول کریں گے ۔بھارتی حکومت نے ہمیشہ یہ کوشش کی تھی اکال تخت پر کٹھ پتلی مسلط رہیں جو دہلی کے گیت گاتے اور خالصتانیوں کو غدار کہتے رہیں ۔یہ نام کے سکھ ہوں اور کام دلی سرکار کا کرتے رہیں۔وقت نے اس پالیسی کو ناکام کردیا ۔وقت بتا رہا ہے کہ آپریشن بلواسٹار کے ذریعے جلاوطن کی جانے والی خالصتان تحریک عالم جلاوطنی میں ہی اپنے نظریات کو واپس مشرقی پنجاب منتقل کر چکی ہے اور یہی بھارت کا نیا درد ِ سر ہے۔