تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں‘3437ارب روپے خسارے کا بجٹ

680
اسلام آباد: وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حما د اظہر بجٹ پیش کررہے ہیں

اسلام آباد ( نمائندہ جسارت) پاکستان تحریک انصاف کے دورحکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کردیا گیا جو 34 کھرب 37 ارب روپے خسارے پر مشتمل ہے۔وفاقی بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا کوئی تذکرہ نہیںجب کہ دفاعی شعبے کے لیے 11.8فیصد اضافہ کرتے ہوئے 12کھرب 90 ارب روپے مختص کردیے گئے۔جمعہ کو اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میںوفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے مالی سال 2020-21ء کے لیے وفاقی بجٹ پیش کیا جس کاکل حجم 71کھرب 37ارب روپے ہے، بجٹ میں وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے اور اخراجات کا تخمینہ 7137 ارب لگایا گیا ہے، اس طرح بجٹ خسارہ 3437 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے۔بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4963 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ حماد اظہر نے بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا کہ آج پیش کیے جانے والے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاجارہا ہے ۔وفاقی بجٹ میں آٹو رکشا، موٹر سائیکل رکشا اور 2 سو سی سی تک کی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم کردیا گیا جب کہ ڈبل کیبن گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔بجٹ میں مقامی سطح پر تیار کردہ موبائل فون پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔سگار اور سگریٹ کی پرچون قیمت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کرنے جبکہ (کیفین والے) انرجی ڈرنکس پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کرنے کی تجویز ہے۔ ای سگریٹ اور درآمدی مشینری پر ٹیکس کی شرح بڑھادی گئی ہے۔ حکومت نے بھاری فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں پر 100 فیصد سے زاید ٹیکس عاید کردیا۔ 2 لاکھ روپے سے زاید سالانہ فیس وصول کرنے والے تعلیمی اداروں کو 100 فیصد زاید ٹیکس دینا پڑے گا۔ تاجروں کے لیے شناختی کارڈ کے بغیر خرید و فروخت کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کردی گئی۔ کورونا وائرس کے تدارک کے لیے 1200 ارب روپے سے زائد کے پیکیج کی منظوری دی گئی ہے، طبی آلات کی خریداری کے لیے 71 ارب روپے اور غریب خاندانوں کے لیے 150 ارب مختص کیے گئے ہیں۔بجٹ میںریلوے کے لیے 40 ارب روپے، تعلیم کے لیے 30 ارب روپے، شعبہ صحت کے لیے 20 ارب، توانائی اور بجلی کے لیے 80 ارب، خوراک و زراعت کے لیے 12 ارب، موسمیاتی تبدیلی کے لیے 6 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے 20 ارب روپے اور قومی شاہراہوں کے لیے 118 ارب رکھے گئے ہیں۔ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے 10 ارب روپے، کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ فنکاروں کی مالی امداد کے لیے مختص رقم 25 کروڑ سے بڑھا کر ایک ارب روپے کردی گئی ہے۔ بجٹ میں این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے، مجموعی ریونیو کا تخمینہ 6573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر کے ریونیو کا 4963 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو 1610 ارب روپے ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2873.7 ارب روپے ہے۔آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت 51 ارب روپے کی کمی کی جا رہی ہے۔ مجموعی وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1324 ارب روپے ہوگا، وفاقی وزارتوں اور ڈویڑنز کے لیے 650 ارب روپے رکھنے اور صوبوں کے لیے 674 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ ہوٹل کی صنعت پر 6 ماہ کے لیے ٹیکس کی شرح ڈیڑھ فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔بجٹ تجاویز میں ایمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ آزاد جموں کشمیر کے لیے 55 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب، خیبر پختون خوا میں ضم اضلاع کے لیے 56 ارب، سندھ کے لیے 19 ارب، بلوچستان کے لیے 10 ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔