کشمیر: مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟

662

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے اندر ضم کرلیا لیکن ہم کچھ نہ کرسکے اگرچہ اس وقت ہم نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم کشمیری عوام کو بھارتی استیصال سے بچانے کے لیے آخری گولی، آخری سپاہی اور آخری سانس تک لڑیں گے۔ اس اعلان سے کشمیری عوام کا حوصلہ بلند ہوگیا تھا۔ انہوں نے سری نگر کے درو دیوار پر پاک فوج کے لیے خیر مقدمی بینرز آویزاں کردیے تھے اور خود ’’پاک فوج زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن ہمارا دعویٰ ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گیا۔ ہم آخری گولی اور آخری سپاہی تو کیا ہم بھارتی جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی موثر سفارتی قدم بھی نہ اٹھا سکے۔ بھارت نے اپنے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کے خلاف کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے پورے مقبوضہ علاقے کو لاک ڈائون کردیا۔ ذرائع ابلاغ پر پابندی لگادی، ٹیلی فون اور نیٹ سروسز معطل کردیں اور پوری دنیا سے اہل کشمیر کا رابطہ منقطع کردیا لیکن نہ ہم قوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے ذریعے بھارت کو اس جارحیت سے باز رکھ سکے اور نہ مسلمان ملکوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو متحرک کرسکے حالاں کہ او آئی سی اس پوزیشن میں تھی کہ بھارت کا اقتصادی بائیکاٹ کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی تھی لیکن اس کے برعکس ہم نے یہ دیکھا کہ او آئی سی کے بعض اہم رکن ممالک اس موقع پر بھارتی وزیراعظم کو ایوارڈ دینے اور اس کے ساتھ اقتصادی معاہدے کرنے میں مصروف ہیں اور اپنے طرز عمل سے اہل کشمیر کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان او آئی سی میں کشمیریوں کا مقدمہ ہی موثر انداز میں پیش نہیں کرسکا اور اس وقت جب کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کو نو ماہ سے زیادہ ہورہے ہیں پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس کے خلاف کوئی اضطراب نہیں پایا جاتا اور بھارت کو کسی عالمی دبائو کا سامنا نہیں ہے۔
اس تناظر میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے جارحانہ منصوبے کو بتدریج آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ وہ مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں لانا چاہتا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ نہ مسلمان اکثریت میں ہوں گے نہ وہ حق خودارادی کا مطالبہ کرسکیں گے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر خود حل ہوجائے گا۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے حال ہی میں مقبوضہ علاقے پر نئے ڈومیسائل قانون کا اطلاق کیا ہے جس کے تحت بھارتی باشندے مقبوضہ کشمیر میں رہائش رکھنے اور املاک خریدنے کے مجاز ہوں گے، وہ مقبوضہ ریاست میں سرکاری ملازمت بھی اختیار کرسکیں گے۔ انہیں وہ تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے جو مقامی ریاستی باشندوں کو حاصل تھے۔ پاکستان اور او آئی سی نے اس نئے قانون کو مسترد کردیا ہے لیکن محض مسترد کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ قوت نافذہ تو بھارت کے پاس ہے اور وہ اس کالے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنارہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سرکاری ریاستی زمینیں بڑے پیمانے پر ہندوئوں کو الاٹ کی جارہی ہیں اور کشمیریوں پر اپنی املاک کو فروخت کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے، انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ سید علی گیلانی نے اپنے ہم وطنوں سے کہا ہے کہ وہ دھمکی اور دبائو کے خلاف ڈٹ جائیں اور کسی صورت بھی اپنی املاک ہندوئوں کو فروخت نہ کریں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اس اراضی پر اس نے اپنے کیمپ اور بنکرز قائم کر رکھے ہیں۔ بھارتی فوج آئے دن مجاہدین کے شبہے میں کشمیری گھروں کو گن پائوڈر چھڑک کر تباہ کرتی رہتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد کشمیریوں کو بے گھر کرنا اور ان کی جائداد پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔
اب کی دفعہ عید کے موقع پر صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف نے اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عید ان کے نام کی اور بھارت کے نئے ڈومیسائل قانون کو مسترد کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر کوشش کی سختی سے مزاحمت کریں گے۔ اس حوالے سے سب سے اہم بیان آرمی چیف جنرل باجوہ کا ہے ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوششوں کا فوجی قوت سے جواب دیں گے۔ اس بیان میں کوئی ابہام نہیں ہے اور روئے سخن بھی بھارت کی طرف ہے۔ دوسرے لفظوں میں بھارت کو خبردار کردیا گیا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کسی کوشش کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے وہ اسے روکنے کے لیے اپنی فوجی طاقت کو بلا دریغ استعمال کرے گا۔ اب اہل کشمیر پوچھ رہے ہیں کہ آخر وہ وقت کب آئے گا جب پاکستان بھارت کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کے لیے اپنی فوجی طاقت کو بروئے کار لائے گا۔ بھارت تو بڑے دھڑلے سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدامات کررہا ہے اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں اور ان اقدامات کے اس کے حق میں مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ پاکستان حق و انصاف کا علمبردار ہے، وہ اہل کشمیر کے حق میں انصاف چاہتا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
کیا کشمیری اپنی اکثریت کھو بیٹھیں گے تو پاکستان کی فوجی طاقت حرکت میں آئے گی؟ پاکستان کو لداخ میں چین کی پیش قدمی اور بھارت کے خلاف فوجی کارروائی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ لداخ چین کا حصہ نہیں ہے لیکن اس علاقے میں بھارت کی ممکنہ جارحیت اور سی پیک کو درپیش سیکورٹی خدشات کے پیش نظر اس نے بھارت کے خلاف فوجی کارروائی سے گریز نہیں کیا۔ چینی فوج کسی وارننگ کے بغیر بھارت کے علاقے میں گھس گئی۔ اس نے دشمن کے کتنے ہی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور کتنوں کو یرغمال بنالیا۔ چینی فوج نے بھارت کے جس علاقے پر قبضہ کیا ہے وہ وہاں اپنے مورچے تعمیر کررہی ہے جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے تو اس کا معاملہ چین بھارت فوجی کشمکش سے بالکل مختلف ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں، یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے جب کہ اس علاقے میں آباد کشمیری کسی صورت بھی بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ وہ بھارت کی جارحیت کے خلاف پاکستان کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور پاکستان اخلاقی، قانونی اور سیاسی طور پر اس بات کا پابند ہے کہ وہ کشمیریوں کی مدد کرے اور اپنی فوجی طاقت کے ذریعے ان کا دفاع کرے۔ پاکستانی حکمران اور جرنیل اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے بہت سے مواقعے ضائع کرچکے ہیں۔ اب یہ آخری موقع قدرت نے انہیں فراہم کیا ہے اگر وہ اسے ضائع کر بیٹھے اور بزدلی، کم ہمتی اور اندیشہ ہائے دور و دراز کا شکار ہوگئے تو کشمیر کی کہانی ختم ہوجائے گی اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔