ایک حادثہ دو کہانیاں

1032

پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کا لاہور سے کراچی جانے والا بدقسمت طیارہ کراچی ائر پورٹ اور رن وے سے ایک منٹ کی مسافت پر آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا۔ طیارے میں اٹھانوے افراد سوار تھے۔ طیارے میں معجزانہ طور پر دو افراد زندہ بچ گئے ہیں جن میں پنجاب بینک کے صدر اور زبیر نامی نوجوان بھی شامل ہیں۔ حادثے کی خبر ملتے ہی پورا ملک سوگوار ہوگیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے جائے حادثہ پر ریسکیو آپریشن شروع کرکے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ پی آئی اے کے جہاز کے پائلٹ نے حادثے سے ایک منٹ پہلے ’’مے ڈے‘‘ کی کال دی تھی۔ ہوا بازی کی دنیا میں ’’مے ڈے‘‘ کا مطلب میری مدد کو آئو ہوتا ہے اور پائلٹ کسی مشکل کی گھڑی میں یہ مختصر الفاظ بول کر کنٹرول روم کو خطرے سے آگاہ کرتا ہے۔ حادثے کی وجوہات کا تعین ہونا ابھی باقی ہے اور اس میں کچھ عرصہ لگ سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ بلیک باکس اور پائلٹ کی طرف سے دیے گئے پیغامات اس تحقیقات کی بنیاد ہوں گے۔ پی آئی اے کے سربراہ ارشد ملک نے کہا ہے کہ طیارہ تکنیکی اعتبار سے صحیح حالت میں تھا اور اس کے تمام پرزوں کا معائنہ باقاعدگی سے کیا جاتا تھا۔ وزیر ہوا بازی سرور خان اور چیئرمین پی آئی اے ارشد ملک نے حادثے کی شفاف اور بین الاقوامی میعار کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے اور کسی غفلت کا مرتکب ہونے کی صورت میں مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے۔ ابھی تحقیقات کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ حادثے کے بارے میں ہمیشہ کی طرح دو کہانیاں گردش کرنے لگی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک حادثے کی دوکہانیوں کا گردش کرنا معمول اور روایت ہے۔ ایک اسٹیریو ٹائپ کہانی ہوتی ہے جو کسی کی گردن تو کسی کی کھال بچانے کے لیے گھڑی جاتی ہے۔ جس میں حادثے کو تقدیر کا فیصلہ اور ایسی ہونی جسے کسی طور انہونی میں بدلا نہیں جا سکتا تھا قرار د ے کر روایتی ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی کی نذر کیا جانا مقصود ہوتا ہے۔ حکمران طبقات اور میڈیا کا بڑا حلقہ اسی کہانی کی جگالی کرتے ہیں اور یہی پھر اصل کہانی اور پورا سچ قرار پاتی ہے۔ دوسری کہانی کا تعلق معاملے کی تہہ میں دبے باریک پہلوئوں سے ہوتا ہے جس میں تقدیر کے ساتھ ساتھ کچھ انسانی کرداروں کی غفلت بھی نظر آتی ہے۔ تساہل اور تغافل بھی پردے کے پیچھے سے جھانکتا نظر آتا ہے۔ بے حسی اور مصلحت کوشی کا عنصر بھی کسی نہ کسی کونے میں دبا پڑا ہوتا ہے۔ یہ کہانی سائیڈ اسٹوری کے طور پر گردش کرتی رہتی ہے مگر پھر اہمیت نہ پاکر لوح حافظہ سے مٹ جاتی ہے اور حادثے پر ’’یہ خون ِ خاک نشیناں تھا رزق ِ خاک ہوا‘‘ کے رویے کی چادر تن کر اسے ماضی کی یادوں کے کوڑے دان میں ڈال دیتی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے نام پر اگر دونوں کہانیوں کے اندر سے سچ تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو رپورٹ کے آنے میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ اس کا آنا اور نہ آنا برابر ہوتا ہے۔ رپورٹ جلدی ہی آجائے تب بھی اس کے نتیجے میں شلجموں سے کچھ مٹی جھڑ جاتی ہے کس مگر مجال ہے کہ ہم غلطی کے اعادے سے بچنے کی کوئی تدبیر کریں۔ اس طرح کراچی حادثے میں بھی پہلے لمحے ہی سے دو کہانیاں گردش کرنے لگی ہیں۔ ایک دور میں باکمال لوگ لاجواب سروس کے ماٹو کی حامل اور علمبردار پی آئی اے کی حالت سیاسی مداخلت اور روزگار کی فیکٹری بننے کے باعث بگڑتی جا رہی ہے۔ ہر دو چار سال بعد پی آئی اے کا کوئی نہ کوئی جہاز تباہی کا شکار ہوکر غم واندوہ کی ایک کہانی رقم کرجاتا ہے۔ یہ پی آئی اے کا گیارہواں بڑاحادثہ ہے۔ ہر بڑا حادثہ سیکڑوں انسانی جانوں کو چاٹ کھاتا رہا ہے۔ موجودہ حادثے نے بھی ایک سو افراد کی جانیں نگل لیں۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنے اختتامی مراحل میں تھا اور عید الفطر کے ساعتیں قریب سے قریب تر آرہی تھیں کہ طیارے کے اکثر مسافر عید کی خوشیوں اور خواب آنکھوں میں بسائے اپنی منزل کی جانب چل پڑے ہوں گے مگر کسے معلوم تھا کہ منزل دوگام پر ہوگی اور ان کا یہ سفر سفرِ آخرت میں بدل جائے گا اور یوں ان کی منزل بھی یک دم تبدیل ہوکر رہ جائے گی۔ منزل کے قریب پہنچ کر مسافروں کو اللہ کا بلاوہ آگیا۔ یہ سب لوگ شہید ہیں مگر اپنے عزیر اقارب کو دائمی جدائی کا غم دے گئے۔ حادثات کو ٹالنا ممکن نہیں ہوتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پی آئی اے کی خراب ہوتی ہوئی کارکردگی اور میعار نے عوام کا اس قومی ائر لائن سے اعتماد قریب قریب ختم کر دیا ہے۔ تارکین وطن بھی اس ائرلائن سے سفر سے گریز ہی کرنے لگے ہیں حالانکہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تارکین وطن کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی قومی ائرلائن سے سفر کریں مگر سہولتوں سے محرومی، ٹکٹ کا مہنگا ہونا، پابندی ٔ وقت سے گریز، مسافروں سے غیر مناسب سلوک تارکین وطن کو مجبوراً دوسری ائرلائنز کی طرف جانے پر مجبور کرتا ہے۔ پی آئی اے کا زوال ایک روح فرسا داستان ہے۔ یہ پاکستان میں اداروں کے قومی زوال کی کہانی کا حصہ ہے۔ پی آئی اے کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پرانے جہازوں کو لیپا پوتی کرکے ہوائوں میں اُڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر کوئی حادثہ ہی ان جہازوں سے ادارے کی جان چھڑانے کا باعث بنتا ہے مگر اس عمل میں قیمتی انسانوں جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ پی آئی اے کی راکھ سے ائر بلیو اور نجانے کتنی ائرلائنز نے جنم لیا مگر یہ ادارے دوبارہ اپنے ماٹو ’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ کا عکاس ثابت نہ ہوا بلکہ اب تو یہ ماٹو ایک پھبتی اور طعنہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔
طیارہ حادثے کی اصل وجہ کبھی منظر عام پر آئے گی بھی یا نہیں؟ یہ تو معلوم نہیں مگر اس حادثے سے ہم کچھ نہیں سیکھیں گے نہیں یہ نوشتہ ٔ دیوار ہے۔ حادثات اور سانحات سے سبق سیکھنا ہماری سرشت میں نہیں۔ ہم حادثے کے بعد لاشعوری طور پر ایک اور حادثے کا انتظارکرنے لگتے ہیں۔ پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کی رپورٹ آنے سے صرف اتنا ہوگا کہ لواحقین کو اندازہ ہوگا کہ ان کے پیاروں پر کیا گزری۔ اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ اس حادثے سے سبق حاصل کرکے پی آے آئی اپنے لچھن ٹھیک کرے۔ قومی ائرلائن کو جدید خطوط پر استوار کرے اور مسابقت اور مقابلے کے لیے تیار کر ے۔ کراچی حادثے سے اگر اس جانب سفر کا آغاز ہوتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ شہدا کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔