افواہیں

636

بہت پرانی بات ہے ایک ممتاز شاعر انجم رومانی کے انتقال کی خبر اخبار میں چھپ گئی۔ ان کے دوستوں نے خبر پڑھی تو ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے گھر پر آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ جو شخص آتا گھنٹی بجاتا تو انجم صاحب حسب عادت دروازے پر خود تشریف لے جاتے، دروازہ کھولتے تو آنے والا ’’مرحوم‘‘ کو سامنے پا کر حیران رہ جاتا اور خیریت پوچھ کر الٹے قدموں واپس روانہ ہوجاتا۔ تین چار مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا تو انجم رومانی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ ’’یہ ماجرا کیا ہے لوگ صبح صبح کیوں آرہے ہیں؟ اس نے بتایا ’’ابا ابھی میرے ایک دوست کا فون آیا تھا۔ وہ آپ کے انتقال پر تعزیت کررہا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ نماز جنازہ کب ہوگی، میں نے اس سے کہا کہ کیا بکتے ہو تو بولا اخبار میں خبر چھپی ہے‘‘۔ انجم رومانی صاحب نے بازار سے اخبار منگوا کر خبر پڑھی اور دیر تک محظوظ ہوتے رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ انہوں نے غالبؔ کے اس شعر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا‘ ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اُٹھتا‘ نہ کہیں مزار ہوتا
خیر وہ زمانہ اخبارات کا تھا یا پھر پی ٹی وی ہوا کرتا تھا جس میں اس قسم کی خبریں بہت چھان پھٹک کے بعد ٹیلی کاسٹ ہوا کرتی تھیں لیکن اب تو پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے۔ منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی والا معاملہ ہے لیکن صاحب الیکٹرونک میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں بھی افواہ کی اثر انگیزی کا جواب نہیں ہے افواہ بے پَر کے اُڑتی ہے اور جدید ذرائع ابلاغ کو بھی مات دے دیتی ہے۔ ان دنوں بھی ایک بڑے سیاستدان کے انتقال کی افواہ گردش میں ہے اس افواہ کو کسی ٹی وی چینل پر پزیرائی نہیں ملی البتہ سوشل میڈیا پر اس کی خوب آئو بھگت ہورہی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت نے اس خبر کو دبالیا ہے اور یہ منصوبہ بندی کررہی ہے کہ موصوف کے انتقال کو کیا رنگ دیا جائے۔ آیا اسے طبعی موت کہا جائے یا اسے قتل قرار دیا جائے۔ افواہ اڑانے والوں نے اس میں خوب رنگ آمیزی کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اگر موصوف کی موت کو قتل قرار دیا گیا تو اس سے صوبائی دارالحکومت میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے اور لوٹ مار شروع ہوجائے گی جیسا کہ ان کی اہلیہ کے قتل پر ہوا تھا۔ صوبائی حکومت ان متوقع ہنگاموں کے ذریعے اپنی اس نااہلیت پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے جس کا مظاہرہ اس نے کورونا کے ہنگام کیا ہے۔ افواہ سازوں کا کہنا ہے کہ ملک کی مقتدرہ بھی اس ممکنہ صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور گورنر اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ہوگا۔ پھر باقی صوبوں میں بھی گورنر راج قائم کردیا جائے گا کیوں کہ ان کی کارکردگی بھی عوام کی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ البتہ وفاقی حکومت باقی رہے گی۔ مقتدرہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ کی حالیہ ملاقات کو بھی افواہ ساز اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اگر عمران خان برسراقتدار رہنا چاہتے ہیں تو انہیں کرپشن کے تمام انکوائری کمیشنوں کی رپورٹ منظر عام پر لانا ہوگی اور ان تمام لوگوں کو پکڑنا ہوگا جو ان کے اردگرد بیٹھے ہوئے کرپشن کی گنگا میں نہا رہے ہیں۔ ان کے ان گنت مشیروں اور کابینہ کے حجم پر بھی اعتراض اٹھایا جارہا ہے اور افواہ ساز یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ اگر حکومت ڈوبی تو اپنے ہی بوجھ سے ڈوبے گی اور اس کا نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ ’’خود کردہ را علاج نیت‘‘ عمران خان بھی اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں اور وہی کچھ کررہے ہیں جس پر اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے شدید تنقید کیا کرتے
تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی قومی اسمبلی کو اس کا اصل مقام دیں گے، تمام فیصلے اس منتخب قومی ادارے میں ہوا کریں گے، وہ قومی اسمبلی میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں گے اور ارکان کے سوالوں کے جواب خود دیا کریں گے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی دوسرے دعوئوں کی طرح ہوا میں تحلیل ہوگیا اور قومی اسمبلی ان کے دیدار کو ترستی رہ گئی۔ اب لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ اگر حکومت چلانے اور پالیسیاں بنانے میں قومی اسمبلی کا کوئی کردار نہیں ہے تو اس پر اربوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ خیر چھوڑیے اس قصے کو ہمارے ہاں لولی لنگڑی جمہوریت اسی طرح چلتی رہے گی، لوگ اس کے قصیدے بھی پڑھتے رہیں گے اور اس پر تنقید کے تیر بھی چلاتے رہیں گے۔ بات سے بات نکلتی ہے اور پھیلتی چلی جاتی ہے ہم ایک اہم سیاستدان کے انتقال کی افواہ پر حاشیہ آرائی کرنا چاہتے تھے کہ بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ ایک سینئر کالم نگر اور تجزیہ کار نے تو اس افواہ سے متاثر ہو کر ’’نواب شاہ کے بادشاہ‘‘ کے زیر عنوان موصوف پر اپنے انداز میں ایک تعزیتی کالم بھی لکھ مارا ہے اور موصوف کی ان تمام ’’خوبیوں‘‘ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل ہوا تھا اور ایک بزرگ ایڈیٹر نے انہیں ’’مردِ حُر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ موصوف کے انتقال کی افواہ بے بنیاد ہے، وہ بیمار ضرور ہیں لیکن خیریت سے ہیں اور افواہ کا اس نقطہ نظر سے لطف لے رہے ہیں کہ
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
خلقِ خدا کے کہنے کے لیے کسی کا مرنا ضروری نہیں ہے وہ تو زندوں کو بھی بہت کچھ کہتی ہے۔