روزنامہ ڈان میں نکہت ستار کا جہاد اور اجتہاد

1518

سیکولر اور لبرل لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کھل کر اسلام کا انکار کرتے ہیں، دوسرے وہ جو اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے اسے ’’مشرف بہ مغرب‘‘ کرتے ہیں۔ سیکولر اور لبرل لوگوں کی پہلی قسم خواہ کتنی ہی بدتر تصور کی جاتی ہو مگر وہ اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے لیے زیادہ خطرناک نہیں۔ اس لیے کہ ان کا ’’انکار مذہب‘‘ سب پر عیاں ہوتا ہے مگر جو لوگ اسلام کو مشرف بہ مغرب کرتے ہیں ان کو لوگ اسلام کا ’’ہمدرد‘‘ تصور کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ لوگ اسلام کے کھلے منکروںسے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام بھی کرتے رہتے ہیں او اس کی روح بھی سلب کرتے رہتے ہیں۔ چند روز پیش تر روزنامہ ڈان میں Jihad for Ijtihad کے عنوان سے شائع ہونے والا مضمون اسلام کو مشرف بہ مغرب کرنے کی کلاسیکل مثال ہے۔ مضمون کسی نکہت ستار کا لکھا ہوا ہے جو روزنامہ ڈان میں اکثر مذہبی معاملات پر تبصرے فرماتی رہتی ہیں۔ محترمہ نے جہاد سے متعلق ایک قرآنی آیت کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد فرمایا۔
’’مذکورہ آیت اور اس کے بعد کی آیت اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ جنگ ’’صرف‘‘ دفاع یا مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے کی جاتی ہے۔ جہاد کا لفظ جہد سے نکلا ہے اور جہاد کا لفظ قرآن مجید میں 41 بار آیا ہے۔ جہاد کی تین اقسام ہیں۔ ایک جہاد نفسانی خواہشات کے خلاف کیا جاتا ہے۔ دوسرا جہاد شیطان کے وسوسوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ تیسرا جہاد اس دشمن کے خلاف کیا جاتا ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہو۔ جہاد کی پہلی دو اقسام جہاد اکبر کہلاتی ہیں اور تیسری قسم جہاد اصغر‘‘۔
(روزنامہ ڈان۔ یکم مئی 2020ء)
جیسا کہ ظاہر ہے نکہت ستار نے اپنے مضمون میں جہاد کا انکار تو نہیں کیا مگر انہوں نے اس کے معنی بدل ڈالے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ جہاد صرف ’’دفاعی‘‘ ہوتا ہے۔ بلاشبہ جہاد ’’دفاعی‘‘ ہوتا ہے مگر پوری امت کا اس بات پر ’’اجماع‘‘ ہے کہ جہاد ’’اقدامی‘‘ بھی ہوتا ہے۔ مگر نکہت ستار نے جہاد کو صرف دفاع تک محدود کرکے جہاد کے تصور کو مسخ کردیا ہے۔ نکہت ستار تو خیر دفاعی جہاد کی قائل ہیں مگر جس اخبار میں ان کا مضمون شائع ہوا ہے وہ تو طالبان کے دفاعی جہاد کا بھی مذاق اُڑاتا رہتا ہے۔ ڈان میں طالبان کے ایسے کارٹون شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں انہیں وحشی، درندہ صفت اور جنگجو دکھایا جاتا ہے۔
نکہت ستار کے مذکورہ بالا خیالات سے یہ ’’تاثر‘‘ بھی ملتا ہے کہ بلاشبہ اسلام میں جہاد کا تصور تو موجود ہے مگر یہ تصور اتنا اہم نہیں جتنا مسلمانوں یا جہادیوں نے اسے بنادیا ہے۔ اسی لیے وہ جہاد بالسیف اور جہاد بانفس کو ایک دوسرے کے مقابل لائی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں قرآن مجید جہاد بالسیف اور اس کی فضیلت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
’’جن لوگوں سے جنگ لڑی جارہی ہے انہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کہتے تھے ہمارا ربّ اللہ ہے‘‘۔
(الحج۔ 39: 40)
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم اور جفاکار ہیں اور ہمارے لیے خاص اپنی طرف سے ایک محافظ و مددگار مقرر فرما‘‘۔
(النساء۔ 75)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر و نافرمان ہیں وہ ظالم اور سرکشی کے خلاف لڑتے ہیں۔ پس شیطان کے دوستوں سے لڑو کہ شیطان کی جنگ کا پہلو کمزور ہے‘‘۔
(النساء۔ 76)
’’اے ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتائوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچالے؟ وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اپنی جان اور مال سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہترین کام ہے اگر تم جانو‘‘۔
(الصف: 11-10)
’’اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف۔ 4)
’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام آباد کرنے کو ان لوگوں کے کام کے برابر ٹھیرایا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں لڑے۔ اللہ کے نزدیک یہ دونوں کام برابر نہیں اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے۔ جنہوں نے حق کی خاطر گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے لڑے ان کا درجہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے اور وہی لوگ ہیں جو حقیقت میں کامیاب ہیں‘‘۔ (التوبہ۔ 20-19)
قرآن مجید کی یہ آیات بتارہی ہیں کہ جہاد کی اہمیت بھی غیر معمولی ہے اور فضیلت بھی غیر معمولی ہے۔ بلاشبہ رسول اکرمؐ نے ایک جہادی معرکے سے لوٹتے ہوئے فرمایا تھا کہ اب ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ مگر اس ارشاد مبارک سے صاف ظاہر ہے کہ جہاد اصغر کے تقاضے پورے کرنے والا ہی جہاد اکبر کے قابل ہوسکتا ہے۔ جو شخص جہاد اصغر کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا وہ جہاد اکبر کے تقاضے بھی پورے نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ رسول اکرمؐ کی مکّی زندگی میں جہاد نہیں تھا مگر رسول اکرمؐ کی پوری مدنی زندگی جہاد میں گزری۔ مدنی زندگی کے 13 برسوں میں 60 سے زیادہ غزوات اور سرایہ ہوئے۔ اس اعتبار سے رسول اکرمؐ نے 13 سال کی مدنی زندگی کے ہر سال میں تقریباً 5 جنگیں لڑیں۔ سیدنا ابوبکرؓ کی زندگی کے 2 سال ’’اقدامی جہاد‘‘ سے لبریز ہیں۔ سیدنا عمرؓ کی خلافت کے 10 سال ’’اقدامی جہاد‘‘ کے دس سال ہیں۔ ان دس برسوں میں وقت کی دو سپر پاورز کو ’’اقدامی جہاد‘‘ کے ذریعے منہدم کیا گیا۔ اقدامی جہاد کا سلسلہ بعد کے زمانوں میں بھی جاری رہا۔ مگر نکہت ستار تاثر دے رہی ہیں کہ جہاد اپنی اصل میں صرف ’’دفاعی‘‘ ہے اور مسلمانوں نے جہاد کو جتنی اہمیت دی ہوئی ہے جہاد اتنا اہم نہیں ہے۔
نکہت ستار نے اپنے مضمون میں صرف جہاد پر ہاتھ صاف نہیں کیا انہوں نے اجتہاد کے سلسلے میں بھی غلط بیانیوں کو اختیار کیا ہے۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ 12 ویں صدی میں مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے چار مذاہب یعنی فقہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مکمل ہیں۔ چناں چہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ہماری نظر سے آج تک کسی مستند عالم کی ایسی تحریر یا تقریر نہیں گزری جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ بلاشبہ ہمارے زمانے میں اجتہاد نہیں ہوا۔ لیکن اجتہاد کے نہ ہونے اور اجتہاد کا دروازہ بند ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں اقبال کا ذکر ضروری ہے۔ اقبال اجتہاد کے علمبردار تھے مگر انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انتشار کی حالت میں اجتہاد سے خرابیوں کا در کھلنے کا اندیشہ ہے۔ چناں چہ آج مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں ان میں اجتہاد خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس سلسلے کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اجتہاد کی شرائط سخت ہیں۔ یعنی ہر کس و ناکس کو اجتہاد کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن مسلم دنیا کے سیکولر اور لبرل عناصر اجتہاد کو بازیچہ اطفال بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جو لوگ قرآن و حدیث کو ترجمے سے پڑھ لیتے ہیں انہیں بھی اجتہاد کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ حالاں کہ یہ تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ جو شخص میر، غالب اور اقبال کو سمجھنے میں پوری زندگی لگاتا ہے اور جو میر، غالب اور اقبال کے حوالے سے کوئی نئی بات کہتا ہے اسے ماہر میر، ماہر غالب اور ماہر اقبال کہا جاتا ہے۔ اگر میر، غالب اور اقبال کے سلسلے میں شرط اتنی سخت ہے تو اجتہاد کے سلسلے میں شرائط کا کیا عالم ہوگا؟۔ دراصل سیکولر اور لبرل لوگ اجتہاد کے اس لیے عاشق ہیں کہ اس کے ذریعے وہ جدیدیت یا Modernism کو ’’اسلامی لباس‘‘ پہنا سکیں اور اسے ’’اسلامی دلیل‘‘ مہیا کرسکیں۔ اس لیے نکہت ستار نے صاف لکھا ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل لوگ تو اجتہاد کے قابل ہی نہیں کیوں کہ مدارس تو ’’رٹّو توتے‘‘ پیدا کررہے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے مدارس کی علمی حالت اچھی نہیں مگر بدقسمتی سے جدید تعلیمی اداروں کی حالت مدارس سے زیادہ خراب ہے۔ جدید تعلیمی ادارے تو رٹّو توتے بھی اعلیٰ درجے کے پیدا نہیں کر رہے ہیں۔ چناں چہ اگر مدارس کے فارغ التحصیل لوگ اجتہاد کے قابل نہیں تو جدید تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل بھی اجتہاد کے لائق نہیں۔ اسی لیے ہمیں ایسے زمانے کا انتظار کرنا چاہیے جب ہمارے درمیان اجتہاد کی حقیقی صلاحیت رکھنے والے لوگ موجود ہوں یہ محض اتفاق نہیں کہ نکہت ستار نے اپنے مضمون میں جدید مجتہدین کی جو فہرست پیش کی ہے ان میں سے ایک کے سوا تمام لوگ جدیدیت زدہ ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر فضل الرحمن جو جنرل ایوب کے دور میں سود کو حلال قرار دینے کی مہم چلائے ہوئے تھے۔ عبدالکریم سروش۔ یہ صاحب ایرانی تھے اور اسلام کو اسی طرح تباہ کرنا چاہتے تھے جس طرح مارٹن لوتھر نے عیسائیت کو ’’اصلاح‘‘ کے نام پر تباہ کیا۔ فرید اسحٰق۔ ان موصوف کا تعلق جنوبی افریقا سے ہے اور ان کا اصل تشخص یہ ہے کہ وہ اسلام اور سیکولر ازم کے درمیان پُل بنانا چاہتے تھے۔ تو یہ ہیں نکہت ستار کے ’’مثالی مجتہدین‘‘ آپ نے دیکھا ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر کا اسلام سے متعلق اصل ایجنڈا کیا ہے؟۔
نکہت ستار نے اپنے مضمون میں ان مسائل کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں ان کے خیال کے مطابق مسلمانوں کو اجتہاد کی اشد ضرورت ہے۔ ان میں شادی کے قوانین، طلاق، وراثت، جمہوریت، انسانی آزادی، عدم مساوات اور ناانصافی وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر علما نے انسانی آزادی کے مغربی تصور اور مغربی جمہوریت کے بارے میں یہ اجتہاد فرما لیا کہ اسلام مغرب کے تصور آزادی اور تصور جمہوریت کو قبول نہیں کرسکتا تو کیا نکہت ستار اور ان جیسے سیکولر اور لبرل لوگوں کے لیے یہ اجتہاد قابل قبول ہوگا؟ اس سلسلے میں ہمارا جواب یہ ہے کہ سیکولر عناصر ایسے اجتہاد کو آنکھ بند کرکے مسترد کردیں گے۔ البتہ اگر کوئی ’’جدید مجتہد‘‘ اجتہاد کے نتیجے میں کہہ دے کہ اسلام ہم جنس پرستی کا بھی قائل ہے اور پیغمبروں پر تنقید بھی جائز ہے اور جمہوریت تو عین اسلام ہے تو ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر بھنگڑا ڈال دیں گے اور کہیں گے یہ ہے ’’اصل اجتہاد‘‘۔ یہ ہے ’’ترقی کا راستہ‘‘۔ یہ ہے ’’عہد جدید سے ہم آہنگ‘‘ ہونے کا طریقہ۔ یہ ہے اسلام کی ’’اصل روح‘‘۔ یہ ہے اجتہاد کا وہ دروازہ جسے ملا، مولوی صدیوں سے بند کیے بیٹھے تھے۔ ہمیں یاد ہے دس پندرہ سال پہلے جاوید غامدی نے اپنی ویب سائٹ پر موجود ایک مضمون میں ہم جنس پرستی کو ’’فطری‘‘ اور ’’جائز‘‘ قرار دے دیا تھا۔ نکہت ستار بھی جہاد اور اجتہاد سمیت کئی مسائل پر یہی چاہتی ہیں کہ اسلام کی من مانی تشریح کے ذریعے اسلام کی روح کو فنا کردیا جائے۔