مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

1817

مسلم دنیا بالخصوص پاکستان کے بعض لوگوں میں ’’نظریہ ٔ سازش‘‘ بہت مقبول ہے۔ یہ لوگ نظریہ ٔ سازش کا اتنا ذکر کرتے ہیں جیسے نظریہ ٔ سازش نظریہ نہ ہو کوئی ’’عقیدہ‘‘ ہو۔ یہ لوگ نظریہ ٔ سازش کھاتے ہیں، نظریہ ٔ سازش پیتے ہیں، نظریہ ٔ سازش اوڑھتے ہیں، نظریہ ٔ سازش بچھاتے ہیں، نظریہ ٔ سازش فروخت کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ لوگوں کے لیے نظریہ ٔ سازش ایک نفسیاتی مرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم کہیں نظریہ ٔ سازش کو تواتر کے ساتھ جلوہ افروز دیکھتے ہیں تو ہمیں مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کی ایک کیس ہسٹری یاد آجاتی ہے۔ یہ کیس ہسٹری ہم نے پچیس سال پہلے ایک رسالے میں پڑھی تھی۔ کیس یہ تھا کہ ایک صاحب فرائیڈ کے پاس آئے اور فرمایا کہ انہیں کائنات میں کوئی ترتیب یا Design نظر نہیں آتا۔ فرائیڈ نے کچھ دن ان صاحب کا علاج کیا تو ان صاحب نے اعتراف کیا کہ کائنات میں تو خیر نظم یا ڈیزائن موجود ہے مگر انہیں دنیا میں کوئی نظم یا ڈیزائن نظر نہیں آتا۔ فرائیڈ نے ان کا مزید علاج کیا تو وہ صاحب دنیا میں موجود نظم یا ڈیزائن کے قائل ہوگئے۔ مگر کہنے لگے کہ انہیں اپنے براعظم میں کوئی نظم یا ڈیزائن نظر نہیں آتا۔ فرائیڈ نے ان کا مزید علاج کیا انہیں اپنے براعظم میں بھی نظم یا ڈیزائن نظر آنے لگا۔ بالآخر معلوم یہ ہوا کہ ان کے تعلقات اپنی بیوی کے ساتھ انتہائی خراب ہیں۔ مطلب یہ کہ گھر کی بدنظمی کو انہوں نے پوری کائنات تک پھیلایا ہوا تھا۔ تحقیق کرائی جانی چاہیے کہ نظریہ ٔ یا ضرورت کے پرستاروں کے تعلقات اپنی بیویوں سے کیسے ہیں؟۔
بعض لوگوں کے یہاں نظریہ ٔ سازش کا بیان اتنا ہولناک ہے کہ ان کی گفتگوئیں سن کر اور ان کی تحریروں کا مطالعہ کرکے خیال آتا ہے کہ معاذاللہ شیطان نے خدا کو قتل کرکے خدا کی تخلیق کی ہوئی دنیا پر مکمل قبضہ کرلیا ہے۔ یہ نہیں تو شیطان اتنا طاقت ور ہوگیا ہے کہ معاذ اللہ خدا نے گھبرا کر اپنی پوری دنیا اور کائنات شیطان کے حوالے کردی ہے اور اب خدا اپنی دنیا اور اپنی کائنات سے الگ ہو کر کہیں گوشہ تنہائی میں بیٹھ گیا ہے۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نظریہ ٔ سازش اس کا پروپیگنڈا کرنے والوں کے ایمان کی کمزوری کا اشتہار ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایک کروڑ سال پہلے بھی اس دنیا اور اس کائنات کا مالک تھا اور آج بھی وہ اپنی تخلیق کی ہوئی دنیا اور کائنات پر حکومت کررہا ہے۔ بلاشبہ آج باطل قوی ہے مگر باطل کب قوی نہیں رہا۔ باطل سیدنا ابراہیمؑ کے زمانے میں بھی قوی تھا، سیدنا موسیٰؑ کے دور میں بھی قوی تھا، رسول اکرمؐ کے عہد مبارک میں بھی قوی تھا مگر اہل ایمان نے کبھی نظریہ ٔ سازش ایجاد نہیں کیا۔ انہوں نے بظاہر کمزور ہونے کے باوجود باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، اسے چیلنج کیا۔
بلاشبہ ہمارے دور میں مغربی دنیا بہت طاقت ور باطل ہے۔ لیکن یہ دنیا ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ’’سازش‘‘ نہیں کررہی ’’کھلے منصوبے‘‘ بنا رہی ہے اور ان پر عمل کررہی ہے۔ 1095ء میں پوپ اربن دوم نے کہا کہ اسلام معاذ اللہ ایک شیطانی مذہب ہے اور میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کو اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ پوپ اربن نے یہ بات کسی ’’خفیہ اجلاس‘‘ میں نہیں کہی تھی اس نے عیسائیوں سے کانا پھونسی کے ذریعے کلام نہیں کیا تھا اس نے چرچ میں کھڑے ہو کر تقریر کی تھی۔ چناںچہ یہ ’’سازش‘‘ نہیں تھی۔ مغرب کا ’’منصوبہ‘‘ تھا۔ یہ منصوبہ ’’خیالی پلائو‘‘ بھی نہیں تھا۔ پوپ اربن نے 1095ء میں تقریر کی اور 1099ء میں پورا یورپ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور اس نے ان صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو کم و بیش 200 سال جاری رہیں۔ صلیبی جنگیں بھی کسی خفیہ تہہ خانے میں نہیں لڑی گئیں۔ وہ زمین کے سینے پر کھڑے ہو کر لڑی گئیں۔ چناںچہ یہ جنگیں بھی ’’سازش‘‘ نہیں تھیں ’’منصوبہ‘‘ تھیں۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ تمام یورپی اقوام 19 ویں صدی میں اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئیں۔ یورپی طاقتوں کا یہ قبضہ کوئی ’’سازش‘‘ نہیں تھا ’’کھلا منصوبہ‘‘ تھا۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے ان کی مذہبی، تہذیبی اور تاریخی زبانیں عربی، فارسی اور اردو چھین لیں اور ان پر انگریزی مسلط کردی۔ یہ کام انہوں نے کسی ’’خفیہ سرنگ‘‘ میں بیٹھ کر نہیں کیا۔ کھلے عام کیا۔ چناںچہ یہ کوئی سازش نہیں تھی۔ یہ بھی ایک منصوبہ تھا۔ انگریزوں نے ہم سے ہمارا نظام تعلیم چھین لیا۔ ہمارے علوم چھین لیے۔ ہمارے فنون چھین لیے۔ ہمارا قانونی نظام چھین لیا۔ یہ کوئی ’’سازش‘‘ نہیں تھی منصوبہ تھا۔ برطانیہ کے ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر ہنٹر نے کہا کہ مغربی علوم ایشیائی اقوام کے مذاہب کو نگل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ہنٹر نے یہ بات کسی ’’خفیہ خط‘‘ میں نہیں لکھی۔ علی الاعلان کہی۔ چناںچہ یہ کوئی ’’سازش‘‘ نہیں تھی ایک ’’منصوبہ‘‘ تھا۔ برطانیہ کے نوبل انعام یافتہ شاعر اور ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے کہا کہ مشرق آدھا بچہ اور آدھا شیطان ہے۔ کپلنگ نے یہ بات کسی ’’خفیہ تار‘‘ یا ’’خفیہ ٹیلی فون کال‘‘ میں نہیں کہی۔ اس نے اپنی یہ بات ایک نظم میں کہی۔ چناںچہ یہ بات کوئی ’’سازش‘‘ نہیں مغرب کا ذہنی سانچہ اور اس کا ایک منصوبہ ہے۔
پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی گرفت میں ہے یہ کوئی ’’سازش‘‘ نہیں یہ مغرب کا ’’منصوبہ‘‘ ہے۔ پاکستان کا دفاع 60 سال سے ’’امریکا مرکز‘‘ ہے۔ یہ کوئی سازش نہیں امریکا کا ’’منصوبہ‘‘ ہے۔ پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمران امریکا کے ’’آلہ کار‘‘ ہیں۔ یہ کوئی سازش نہیں کھلا منصوبہ ہے۔ بلاشبہ مغرب اور اس کے اتحادی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش بھی کرتے ہیں لیکن مغرب کے منصوبے اور سازش کے درمیان تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف 95 فی صد منصوبے بناتا اور ان پر عمل کرتا ہے اور 5 فی صد سازش کرتا ہے۔ مغرب کے منصوبے درجنوں ٹھوس شہادتوں سے ثابت ہیں اور مغرب کی سازش محض ایک قیاس آرائی ہے مگر بعض لوگ مغرب کے 95 فی صد منصوبوں پر کلام ہی نہیں کرتے اس کیے برعکس وہ مغرب کی 5 فی صد سازش کو خود بھی سر پر بٹھائے ہوئے ہیں اور اسے دوسروں کے سر پر بھی بھوت کی طرح سوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلاشبہ یہ اسلام اور مسلمانوں کی دوستی نہیں ان سے دشمنی کی ایک صورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہر چیز ہی ’’سازش‘‘ ہے تو پھر کہیں نظریہ ٔ سازش بھی تو کسی شیطانی قوت کی سازش ہوسکتا ہے۔
ممکن ہے کورونا وائرس مغرب کی ایجاد ہو، لیکن وہ کیسے ’’اہل ایمان‘‘ ہیں جنہیں قرآن و حدیث کے ’’دلائل‘‘ سے زیادہ اپنے ’’قیاس‘‘ پر اعتبار ہے۔ کیا قرآن و احادیث میں قوموں پر عذاب کے واقعات موجود نہیں؟ کیا خدا نے متکبر افراد اور قوموں کو سزا نہیں دی؟ کیا مغربی دنیا ’’بدترین متکبرین‘‘ کی دنیا نہیں؟ کیا خدا کی سزا اور عذاب صرف نمرود اور فرعون کے لیے تھا؟ کیا خدا نے کہیں اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ 21 ویں صدی کے متکبرین کو سزا نہیں دے گا؟۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو ہر مسلمان کو پہلا خیال یہ آنا چاہیے کہ کہیں کورونا وائرس اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور متکبرین کے لیے اس کی سزا کی کوئی صورت تو نہیں؟ مگر نظریہ ٔ سازش کے علمبردار کورونا کے سلسلے میں بھی صرف سازش، سازش کرتے نظر آرہے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے:
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگ باطل کو قوی اور خدا کو کمزور سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے جو کچھ کرسکتا ہے باطل ہی کرسکتا ہے، بیچارہ خدا تو کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ معاذ اللہ۔
لوگ سازش کے سلسلے میں سامنے کی ایک بات پر غور نہیں کرتے اور وہ یہ کہ سازش کمزور آدمی یا کمزور فریق کرتا ہے۔ تو کیا مغرب اور مسلمانوں کے تعلق میں کمزور فریق مغرب ہے؟ ارے بھائی دنیا کی سیاست مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا کی معیشت مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا کے قوانین مغرب کے ہاتھ میں ہیں۔ دنیا کا انصاف اور ناانصافی مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ پھر اسے کیا ضرورت پڑی کہ وہ ایک کمزور وجود یا کمزور فریق کی طرح سازش کرے۔ مغرب خود کو قوی سمجھتا ہے۔ چناںچہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازش نہیں کرتا ’’منصوبے‘‘ بناتا ہے اور دھڑلے سے ان پر عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ مسلم دنیا کے تمام بادشاہ، تمام جرنیل، تمام اہم سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں، تمام اہم ابلاغی ذرائع، تمام اہم رائے ساز مغرب کی مٹھی میں ہیں۔ مغرب مسلمانوں کے خلاف پانچ فی صد سازش کرتا ہے تو اس کی وجہ مسلمانوں کی طاقت نہیں اسلام اور اس کے علمبرداروں کی طاقت ہے۔ اسلام زندہ اور اس کے علمبردار ’’امکانات‘‘ کے حامل نہ ہوتے تو مغرب مسلمانوں کے خلاف پانچ فی صد سازش کی بھی ’’زحمت‘‘ نہ کرتا۔