کورونا کا خاتمہ: لاک ڈائون سے ممکن نہیں

505

محمد اکرم خالد
وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان میں کورونا کا چیلنج مغرب سے مختلف ہے پورے ملک کو لاک ڈائون نہیں کر سکتے ہم نے ۱۲۰۰ ارب کا پیکج دیا ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی لوگوں کو روز گار دینے کے لیے زراعت کے بعد دوسرا بڑا سیکٹر تعمیرات کا ہے تعمیراتی شعبہ کو ۱۴ اپریل سے کھولنے جارہے ہیں اس سال تعمیرات میں سرمایہ لگانے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ کالا دھن رکھنے والوں کو مزدور دہاڑی دار طبقے کی آڑ میں کورونا کے سبب NRO دیا گیا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ وزیر اعظم کے اس اقدام سے یقینا بلڈر مافیا ناجائز آمدن بنانے والوں کو ایک بڑا ریلیف حاصل ہوا ہے۔ بڑی معذرت کے ساتھ یہ وقت یقینا تنقید کا نہیں ہے اس وقت دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی وبائی آفت کی زد میں ہے۔ لوگوں کو خوف میں مبتلا کر کے گھروں میں محصور کیا جارہا ہے، مگر بدقسمتی سے عوام کو کوئی ریلیف فراہم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سلام ہے اُن فلاحی تنظیموں کو جو ہر بری گھڑی میں اپنے عوام کی مدد کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بد قسمتی سے ستر برس گزار جانے کے باوجود ہم مخلص محب وطن باصلاحیت اہل قیادت سے محروم ہیں رنگ ونسل کی بنیاد پر کل بھی سیاست کی جاتی تھی اور آج بھی بد قسمتی سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ سندھ میں لاک ڈائون کی تجویز کو میڈیا نے بڑا سراہا ہے، یقینا سندھ حکومت کے اس اقدام سے کورونا کے پھیلائو میں کمی آئی ہوگی۔ مگر ساتھ ہی یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ جس وقت لاک ڈائون کی حکمت عملی اپنائی گئی اُس وقت تک نہ مریضوں کی تعداد میں اس طرح کا اضافہ دیکھا گیا اور نہ ہی اموات کی تعداد کوئی خاص تھی مگر لاک ڈائون کے بعد مریضوں کی تعداد اور اموات میں ہر روز مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ سب کچھ لاک ڈائون کی وجہ سے ہورہا ہے البتہ یہ بات واضح ہے کہ لاک ڈائون نے لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا ہے چھوٹے چھوٹے گھروں میں ایک ہجوم جمع ہے، عام اوقات میں ایسا نہیں تھا مرد ملازمت پر، بچے اسکول کالج میں اور خواتین گھریلوں کاموں میں مصروف نظر آتی تھیں مگر اب یہ تمام افراد گھروں میں۴ ۲ گھنٹے ایک ساتھ جمع ہیں اگر یہ وبا ہجوم کی وجہ سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتی ہے تو کیا ہم نے سڑکوں آفس اسکولوں سے ہجوم ختم کر کے گھروں میں منتقل نہیں کر دیا ہے۔ یقینا میری اس بات سے شاید اتفاق نہ کیا جائے مگر اس جانب سوچا ضرور جاسکتا ہے۔
کورونا سے بچائو ہجوم سے اجتناب اور فاصلہ پیدا رکھنا تھا مگر ایسا نہیں ہورہا پانچ بجتے ہی عوام قانون نافذ کرنے والوں کے خوف سے گھروں کی چھتوں پر دوستوں کے ساتھ پتنگ بازی اور مختلف محفلوں کا انعقاد کرتے ہیں رات کے اوقات میں گلی محلوں میں لائٹ آف کر کے ایک ہجوم بنا کر محفل سجائی جاتی ہے، احتیاطی تدابیر کا جنازہ نکلا جاتا ہے جس کی جانب توجہ نہیں دی جارہی۔ ہمارے خیال سے حکومت جس سمت کی جانب گامزن ہے اُس سے دو نقصانات کا بڑا اندیشہ اگلے کچھ دنوں میں سامنے آنا شروع ہوجائے گا جن میں سے ایک نقصان کی وضاحت گزشتہ روز سپریم کورٹ میں کورونا کے حوالے سے جمع کرائی گئی حکومتی رپورٹ میں بھی واضح کر دیا گیا ہے حکومت کے مطابق اپریل کے آخری ہفتے میں پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہوسکتی ہے اگر لاک ڈائون کے بعد بھی اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو پھر ہم دوسرے نقصان یعنی معاشی بحران کی جانب کیوں گامزن ہورہے ہیں پاکستان معاشی بنیاد پر ایک کمزور ملک ہے اور یقینا لاک ڈائون کی وجہ سے ہماری معیشت مزید تباہی کی جانب گامزن ہورہی ہے۔
یہ وقت تنقید اور نا ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ہے البتہ یہ وقت درست حکمت عملی کے ساتھ موثر فیصلے کرنے کا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو کورونا وائرس سے کوئی زیادہ خطرہ نہیں ہے مگر اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم احتیاط نہ کریں۔ ہم کورونا کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہ کریں۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات کا اطراف کر چکے ہیں کہ ۲۲ کروڑ سے زائد کی آبادی کو ہم مکمل ریلیف فراہم نہیں کر سکتے جو درست ہے مگر ان ہی باتوں سے حکومت کی اہلیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے جیسے سندھ حکومت لاک ڈائون کرانے میں تو جزوی کامیاب ہوگئی ہے مگر اندارون سندھ اور کراچی شہر کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
کورونا سے بچائو ہجوم سے اجتناب اور آپس میں فاصلہ رکھنا تھا البتہ ایسا نہیں ہورہا جو لوگ لاک ڈائون کی وجہ سے گھروں میں محصور ہیں ان میں بھی کورونا کے کیس سامنے آرہے ہیں کیوں کے حکومت نے لوگوں کی مصروفیات کو ختم کر کے گھروں میں بیٹھا دیا ہے۔ اگر اسکول کالج کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ چلائے جانے کی اہلیت ہوتی تو تعلیمی عمل جارہی رہے سکتا تھا ایسی طرح سرکاری اور پرائیویٹ آفس اور کاروبار کو بھی احتیاطی بنیادوں پر چلایا جاتا تو آج ہم راشن کی تقسیم اور غیر سنجیدہ ریلیف پیکیج سے آزاد ہوتے پاکستان کا معاشی سسٹم چلتا رہتا اور ہم معاشی بحران کی جانب گامزن ہونے سے بھی محفوظ رہتے راشن اور امدادی چیک کی تقسیم سے بہتر تھا کہ ہم لوگوں میں اس وائرس سے احتیاط برتنے کی مہم چلاتے، رات آٹھے بجے کے بعد پورے ملک میں کرفیو لگایا جاسکتا تھا البتہ تمام تر تفریحی مقامات اور شادی بیاہ کی تقریبات پر تین ماہ کی مکمل پابندی لگائی جاسکتی تھی۔
اب بھی وقت ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں مل کر ایسا لائحہ عمل بنائیں جن سے اس وبائی آفت پر قابو بھی پایا جاسکے اور پاکستان کا معاشی سسٹم بھی چلتا رہے۔ اگر چند دن مزید ملک کو لاک ڈائون رکھا گیا تو شاید حالات حکومت کے بس سے باہر ہوجائیں جس پر قابو پانے کے لیے نہ ہی ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی صلاحیت لہٰذا درست سوچ کے ساتھ ملکر درست فیصلے کیے جائیں۔