یہ کورونا!!!

437

اب تک کی دنیا میں کبھی کوئی اس بات کا تصور نہیں کرسکتا تھا کہ ایک نظر نہ آنے والا جرثومہ دنیا کے ایک ارب سے زائد لوگوں کو گھروں میں محصور کردے گا۔ بازار، اسکول، ہر قسم کی ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹ، کلینک سب بند۔ لوگوں کو ہدایات ہیں کہ گھروں سے نہ نکلیں جو نکلیں ان کے لیے کورونا تو ہے ہی پولیس اور فوج بھی موجود ہے، زیادہ شور مچانے کی کوشش کی تو جیل کی ہوا کھانا ہوگی۔ یہ تو ہم نے خود دیکھا پولیس کی وین دکانداروں کو دکان بند رکھنے کا کہتی رہی، وین کے جاتے ہی کچھ دکانداروں نے اپنی دکانوں کے شٹر اٹھائے تو پولیس والے پھر آگئے اور دو زیادہ شور کرنے والوں کو وین میں بیٹھالیا۔ دکاندار پھر بھی واویلا کرتے رہے تو آگے سے پولیس کا حوالدار اُتر کر پیچھے گیا اور ڈپٹ کر بولا چپ ہوجائو ورنہ دونوں کے کان کے نیچے ایک ایک دوں گا۔ دکانداروں کی بولتی فوراً بند ہوگئی، شاید دل میں کہا ہو کہ شکر ہے ایک ایک ہی دینے کے لیے کہا ہے۔ بہرحال کوشش جاری ہے، کورونا سے نمٹنے کے لیے مسجدوں، بازاروں میں اسپرے کیا جارہا ہے، کسی کسی شہر میں تو یہ بھی اطلاع ہے کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے دوا اسپرے کی گئی۔ کورونا بھی ختم ہوگا لیکن اس سے پہلے مچھر ضرور کم ہوگئے ہیں لیکن کوڑے کا ڈھیر بدستور جراثیم کی لیبارٹریاں بنے ہوئے ہیں۔ بہتر تھا کہ کوڑے کے ڈھیر اُٹھانے کا انتظام بھی کیا جاتا۔ خواہ اس کے لیے رینجرز یا فوج کی مدد ہی کیوں نہ لینی پڑتی۔ کوڑے کے ڈھیروں سے بڑھ کر جراثیم کا اڈا کیا ہوسکتا ہے؟۔ گلی کوچوں میں نوجوانوں کے اڈے اور کرکٹ کے میچز کے خاتمے کے لیے تو فورسز چکر لگاہی رہی ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ نے پاک فوج کے تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت بھی دی ہے کہ کورونا جیسی وبائی بیماری سے نمٹنے کے لیے قومی کوششوں میں تعاون کریں۔ وزیر اعلیٰ سندھ بھی کچھ عملی اقدامات کریں، عمل سے مراد ہر گز چوکوں، چوراہوں پر لڑکوں کو مرغا بنانا نہیں ہے۔ جناب کورونا ایک جراثیم ہے اور جراثیم پھیلنے سے روکنے کے لیے گندگی کے ڈھیروں کی صفائی ضروری ہے، کورونا سے ان شاء اللہ قوم نمٹ ہی لے گی لیکن آپ بہتے گٹر، آوارہ کتے اور کچرے کے ڈھیر سے تو نمٹ لیں۔ کورونا سے قبل ان سے ہونے والی اموات اور بیماریاں بھی ایک حقیقت ہیں۔ چائنا کٹنگ کے تحت شہر کے کھیل کے میدان اور فلاحی پلاٹوں پر قبضے تو ہوہی رہے تھے یہ کوئی برس دو برس کی بات نہیں عشروں کا قصہ ہے، عرصے سے یہی لوگ سندھ کے حکمران ہیں۔ پورے شہر میں پہلے سندھ بلڈنگ اتھارٹی کے تحت غیر قانونی عمارتیں بنانے کی اجازت دی گئی۔ اب انہیں توڑنے کا کام ہے۔ یہ توڑ جوڑ کا پیسا کس کس کی جیب میں جاتا ہے؟ اسپتالوں کی حالت اگر کورونا کے خوف کے باعث ہی سہی کچھ درست کرلی جائے تو یہ ایک اچھا اقدام ہوگا۔ عوام دبائو کا شکار ہیں لیکن شکر ہے کہ اس قدر نہیں کہ ڈپریشن کا شکار ہوں۔ یہ ایک لحاظ سے مثبت ہے کہ لوگوں کو اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں جیسے ورزش، کسی کتاب کا اجتماعی مطالعہ ایک مثبت طریقہ ہے۔ کورونا کی وجہ سے لوگوں کو ہاتھ دھونے اور صاف صفائی کے معاملات پر توجہ دینے اور عادت بنا لینے کا خیال ہوجائے تو یہ بھی ایک بہت اچھی بات ہوگی۔
بات اہم ہے توجہ طلب ہے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اپنے ذہنوں کو خوف و ہراس سے آزاد کرلیں کیوں کہ خوفزدہ ذہن سے جنگیں جیتی نہیں جاسکتیں۔ خوف سے پیچھا چھڑانے کے لیے قرآن اور حدیث سے تعلق کو مضبوط کریں۔ ایمان کی مضبوطی کسی بھی خوف کو دل سے نکال دیتی ہے۔ دعائوں اور استغفار کو لازم کرلیں۔ خاص طور سے ان ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے خاص دعائیں کریں جو فرنٹ لائن کے سپاہی ہیں۔ کورونا سے متعلق بہت زیادہ خبریں نہ سنیں نہ ہی لوگوں سے بار بار اُس کا ذکر کریں، دن میں ایک دفعہ مستند خبروں پر نظر ڈال لیں۔ باخبر رہنے کے لیے یہ کافی ہے۔ عمر رسیدہ لوگوں اور بچوں کا خاص خیال رکھیں۔ انہیں آسان زبان میں احتیاطی تدابیر کے بارے میں سمجھادیں۔ اُن کے غصے پریشانی کے اظہار پر تحمل سے کام لیں۔ سب سے بڑھ کر وہ اہم کام کریں جس سے خوشی اور سکون ملتا ہے۔ یعنی استغفار اور اللہ کا ذکر۔