کورونا وائرس ، منافع خور گندم مافیا سرگرم ، سیکرٹری خوراک کا سخت ایکشن

228

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے ساتھ سندھ سے گندم کی اسمگلنگ کے لیے مافیا سرگرم ہوچکی ہے تاہم صوبائی حکومت کے محکمہ خوراک نے فوری سخت کارروائی کرتے ہوئے گندم کی کراچی سمیت صوبے بھر سے منتقلی کے لیے ہنگامی اقدامات کرلیے ہیں۔ اس ضمن میں مصدقہ سرکاری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ کے سیکرٹری خوراک لئیق احمد نے کراچی سمیت صوبے بھر میں گزشتہ 3 روز کے دوران گندم کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہونے اور اس کی مصنوعی قلت پیدا ہونے کا نوٹس لیا۔تو یہ بات سامنے آئی کہ میر پورخاص اور حیدرآباد ریجن میں گندم کی فصل کی کٹائی کا عمل ختم ہوتے ہی صوبے کے باہر اور ملک کے دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں منافع خور مافیا کے لوگ صوبے سندھ میں داخل ہوکر گندم کی خریداری میں مصروف ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے صوبے میں گندم اور آٹے کے بحران کے خدشات پیدا ہوگئے۔ اس اطلاع پر سیکرٹری خوراک نے فوری طور تمام ڈویژنز کے کمشنرز، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو خط لکھ کر مطلع کیا ہے کہ گندم اور آٹے کی ترسیل کرنے والے ٹرکس اور ٹریلرز کو چیک کیا جائے اور صوبے سے باہر لے جائے جانے والی ان اشیا کو فوری روک کر قوانین کے تحت ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ذرائع کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ سندھ میں گندم کی فصل 15 مارچ کے بعد کٹنا شروع ہوجاتی ہے جبکہ پنچاب میں ماہ اپریل کے بعد گندم کی فصل کی کٹائی ہوتی ہے اس لیے صوبے باہر کے تاجر اور آٹے کی ملیں سندھ سے آکر گندم سستے داموں خرید لیا کرتے ہیں اور اسے یہاں سے پنجاب اور دیگر صوبوں میں لے جاکر بلوچستان کے راستے افغانستان اسمگل کرادیا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ میں گندم اور آٹے کی قلت پیدا ہوجاتی ہے ساتھ ہی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔اس ضمن میں سندھ کے فعال سیکرٹری خوراک لئیق احمد سے جب ” جسارت ” نے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صوبے سے ملک کے دیگر صوبے کے تاجر گندم کی خریداری کے لیے میر پورخاص اور حیدرآباد کے اضلاع میں پہنچ کر خریداری شروع کرچکے تھے تاہم اطلاع ملتے ہی ایسے خریداروں کی حوصلہ شکنی کے لیے ہنگامی اقدامات کے تحت صوبے کے تمام اضلاع کے راستے بیرون صوبہ جانے والے گندم اور آٹے کے ٹرکس اور ٹریلر کو روک کر کارروائی کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں لئیق احمد نے وضاحت کی ہے کہ ابھی تک صوبے بھر میں گندم اور آٹے کا بحران نہیں ہے تمام آٹا ملوں میں ضرورت کے مطابق گندم موجود ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ڈھائی نمبر آٹے کی ریٹل قیمت 45 روپے فی کے جی جبکہ ملز کی قیمت 43 روپے فی کلو مقرر ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ برانڈیڈ آٹے کی قیمتیں محکمہ خوراک مقرر نہیں کرتا جبکہ کراچی کے شہری سفید آٹا ہی زیادہ استعمال کرتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے بھی مضر ہوتا ہے۔سفید آٹا صحت کے لیے معیاری نہیں کہلاتا۔ دریں اثنا پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین خالد مسعودنے صوبائی وزیر خوراک کو لکھے گئے ایک خط میں واضح کیا ہے کہ ریجن میں آٹے کی کوئی قلت یا کمی نہیں ہے۔ تمام فلور ملز گنجائش کے مطابق چل رہیں ہیں جہاں سے ضرورت کے مطابق آٹا متعلقہ تاجروں کو سہولت کے ساتھ پہنچایا جارہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آٹا کی قلت کی افواہیں ہیں جس میں بڑا کردار میڈیا کا ہے۔