کر کسی سینہ پر سوز میں خلوت کی تلاش

1374

کورونا کی وبا ہمارے شہروں میں داخل ہوچکی ہے۔ اس وبا کے جہاں بے شمار منفی پہلو ہیں وہیں کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ وہ زندگی جہاں ہر کسی پر کوئی نہ کوئی مسلط ہے اس وبا نے ملاقاتوں سے اجتناب کے مواقع فراہم کردیے ہیں۔ تنہائی، خلوت اور گوشہ نشینی کے دن اور رات فراہم کردیے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ روابط، تعلقات، رشتے، خواہش، جذبات، محبت اور دوستی انسان کو مطمئن اور آسودہ رکھتی ہے لیکن ساتھ ہی مضطرب، بے چین، پریشان اور پر ملال بھی جبکہ خلوت اور گوشہ نشینی روح کا وہ سفر ہے جو آگہی، تفکر، صبر، شکر اور بندگی کی کشش سے آگاہ کرتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے:
شعلے سے ٹوٹ کے مثل شرر آوارہ نہ رہ
کر کسی سینہ پر سوز میں خلوت کی تلاش
علامہ اقبال کے اس شعر کی تشریح میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کے خیالات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ فرماتے ہیں ’’تنہائی میں خیالات کی یکسوئی کے سبب باطن صاف ہو جاتا ہے اگر باطن کی صفائی مذہبی رہنمائی اور رسول اللہؐ کی سچی پیروی کا نتیجہ ہے تو اس سے روشن ضمیری، دنیا سے بے تعلقی، ذکر الٰہی کی حلاوت اور مخلصانہ عبادت کا ظہور ہوگا اور اگر مذہبی ہدایت اور رسول کریمؐ کا اتباع مقصود نہیں تو محض نفس کی صفائی ہوگی‘‘۔
لیکن خلوت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ خلوت میں انسان شیطان کا سب سے آسان ہدف ہوتا ہے۔ شیطان جو رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے خلوت میں زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتا ہے۔ رسالت مآبؐ کی ایک حدیث کا مفہوم بالاختصار یہ ہے کہ ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کی پہاڑ جیسی نیکیاں گردو غبار کی طرح اڑا کر بے وزن کردی جائیں گی۔ دریافت کیا گیا یہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جو خلوت میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو پا مال کرتے تھے (سنن ابن ماجہ)‘‘۔ خلوت ایک امتحان ہے۔ سورۃ المائدہ آیت 94میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے کہ کون کون اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتا ہے‘‘۔ خلوت اور تنہائی میں اللہ سے ڈرنے والا ممتاز مقام کا حامل ہوجاتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خلوت میں گنا ہوں سے بچنے پر بہت بڑے اجر کا وعدہ کیوں کیا ہے کیونکہ خلوت کے گناہ انسان کے عزم اور ارادے کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ انسان خود اعتمادی اور معاملات میں شفافیت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ سید المرسلین محمدؐ دعا مانگا کرتے تھے ’’اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاہر سے اچھا کردے‘‘۔
آج انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور موبائل فونز نے خلوت کے گناہ بہت آسان کردیے ہیں۔ ایسے ایسے گناہ ایک ہلکی سی کلک کی دسترس میں آگئے ہیں ہمارے باپ دادا نے تصور جاناں میں بھی جن کی جھلک نہ دیکھی ہوگی۔ اس بات کو مزید وسعت دینے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ آپ سمجھ گئے ہوں کس کس طرف اشارہ ہے۔ تنہائی کے ان گنا ہوں کا عذاب!! جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعیؒ اپنے ایک خواب کے حوالے سے فرماتے ہیںکہ میں نے ایک کھلی ہوئی قبر دیکھی اور ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’یہ زنجیر پکڑو اور اس کے منہ میں داخل کرکے اس کی شرمگاہ سے نکالو‘‘۔ اس مردے نے کہا ’’یارب عزوجل کیا میں قرآن نہیں پڑھتا تھا کیا میں تیرے حرمت والے گھر کا طواف نہیں کرتا تھا یکے بعد دیگر وہ اپنی نیکیاں گنواتا چلا گیا۔ صدا آئی ’’تو لوگوں کے سامنے یہ اعمال کیا کرتا تھا لیکن جب تو تنہائی میں ہوتا تو نافرمانیوں کے ذریعے مجھ سے اعلان جنگ کرتا اور مجھ سے نہیں ڈرتا تھا‘‘۔
کورونا کی وبا کی وجہ سے آپ کو تنہائی کے جو روز وشب میسر آئے ہیں ان سے فا ئدہ اٹھائیے۔ تنہائی میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرنا صفت احسان کا تقاضا ہے۔ احسان کا مطلب ہے کہ اللہ کی بندگی ایسے کریں گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر آپ نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ ہی رہا ہے۔ تنہائی کے ان لمحات میں اللہ کی عبادت کیجیے۔ قرآن مجید کی تلاوت کیجیے۔ بعض دانشور یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ بغیر سمجھے قرآن پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ غلط اور خطرناک خیال ہے۔ تلاوت قرآن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ اپنی فہم اور ذوق کے مطابق تفاسیر کا مطالعہ کیجیے۔ جہاں الجھ جائیں۔ انہیں بعد میں علماء کرام سے سمجھ لیجیے۔ اپنے خیالات کے گھوڑے نہ دوڑائیں۔ ایک ماہر ہی کسی بھی علم کے رموز اور باریکیوں سے آگا ہ ہوتا ہے۔ دینی کتب کا مطالعہ کیجیے تاکہ آپ آگاہ ہوسکیں کہ اسلام کی صورت کیا نعمت کبریٰ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو بن مانگے عطا کردی ہے۔ ایک معمولی سے وائرس کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سائنس، ٹیکنا لوجی، انسانی رسائیوں، تسخیر، طاقت، زعم اور گھمنڈ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ پوری دنیا کی معیشتیں بیٹھ رہی ہیں اور سخت حالات آنے والے ہیں۔ دوا دعا، عبادات اور صدقات سے اللہ کی مدد لینے کی ضرورت ہے۔ اس وبا کے حوالے سے جب کہ اسلام کا روشن چہرہ دنیا پر ظاہر ہو چکا ہے آئیے دین مبین سے کچھ روشنی حاصل کرتے ہیں۔
بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ہماری موت کا وقت اور ہمارا رزق مقرر ہے اور جو مصیبت ہمارے لیے لکھ دی گئی ہے وہ ہمیں آکر رہنی ہے۔ اگرچہ ہم اپنے اسباب اختیار کرتے ہیں اور احتیاط بھی کرتے ہیں۔ ان قطعی امور پر غیر متزلزل ایمان کے باعث ایک مسلمان مایوس ہوتا ہے اور نہ خوفزدہ بلکہ اسے اللہ کی طرف سے قضا سمجھ کر اس پر صبر کرتا ہے اور اللہ کے حضور صبر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ سورہ توبہ آیت 51 میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے۔ (ترجمہ: کہہ دیجیے کہ ہمیں نہیں پہنچے گا مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے۔ وہ ہمارا مولا ہے اور مومنوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے)
عرب میں پانی کی قلت کے باوجود اسلام نے نماز کے لیے وضو کو فرض اور جمعہ کے لیے غسل کو سنت قرار دیا ہے۔ مسلمان ان احکامات کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کے لیے بجا لاتے ہیں لیکن یہ احکامات اسلام میں طہارت اور صفائی کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ کورونا وائرس نے ہمیں اسلام کے احکامات کا ہماری زندگی سے مناسبت کا احساس دلایا ہے۔ کورونا وائرس نے دنیا کو بتادیا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اسلام ہی ریفرنس پوائنٹ ہے۔
عالی مرتبت سید المرسلین محمدؐ کا فرمان ہے: ’’جو اپنے آپ کو طاعون کے علاقے میں پائے لیکن وہ اسی علاقے میں ٹھیرا رہے اور اللہ سے اجر کی امید کے ساتھ یہ جانتے ہوئے صبر کرے کہ اسے کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے جو اللہ نے اس کے لیے لکھ دی ہے تو اس کے لیے شہید جیسا اجر ہے (بخاری)‘‘۔ یہ حدیث وبا کی صورت میں احتیاطی تدابیر ہی کو بیان نہیں کررہی بلکہ بتا رہی ہے کہ اپنی ذات کو بچانے پر شرع کے حکم کو مقدم رکھنا اور معاشرے کے تحفظ کی کیا اہمیت ہے۔ درست احتیاطی تدابیر وہی ہیں جو شریعت کے مطابق ہیں نہ کہ شریعت کے منافی۔ کورونا کی وبا اسلام کے ضابطہ حیات ہونے کی توثیق کرتی ہے جو انسان کو حلال اور حرام جانوروں کی تمیز دیتا ہے، طہارت اور صفائی کی ترغیب دیتا ہے اور وبا کے متعلق مخصوص احکامات بتاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کا مکمل نفاذ کیا جائے۔ اس وبا نے واضح کردیا ہے کہ اسلام ہی دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں حتی کہ کورونا جیسی وبا میں بھی انسانیت کی رہنمائی کا واحد ذریعہ ہے۔