سرکلر ریلوے 3ماہ میں فعال کرنے کا حکم ‘سندھ پولیس میں 18ہزار بھرتیاں غیرقانونی تھی‘ عدالت عظمیٰ

256

اسلام آباد(نمائندہ جسارت)عدالت عظمیٰ نے 3 ماہ میں کراچی سرکلرریلوے کومکمل آپریشنل کرنے کا حکم دے دیا۔بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت ہوئی۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے شیخ رشید سے کہا کہ بزنس پلان میں آپ نے سب کچھ کہہ دیا لیکن یہ نہیں بتایا اس پرکب اورکیسے عمل ہوگا، جس پر شیخ رشید نے کہا کہ جو کام 70 سال میں نہیں ہوا وہ 12 دن میں ہوگیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایم ایل ون کے بارے میں پتا چلا ہے ایلی وٹیڈ ٹرین بنا رہے ہیں، ریلوے اگر اپنی5جائداد فروخت کر دے توسارے مسائل حل ہو جائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایم ایل ون لمبی کہانی ہے جس پر شیخ رشید نے کہا کہ 14 سال بعد ایم ایل ون کا ٹینڈرہورہا ہے، 5سال میں ایم ایل ون مکمل ہوجائے گا، کراچی سرکلرریلوے کے لیے گزشتہ رات عمارتیں گرائی ہیں، سندھ حکومت بھی تعاون کررہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی سرکلرریلوے سندھ حکومت کو کیوں دے رہے ہیں، اس کا حال بھی کراچی ٹرانسپورٹ جیسا ہوجائے گا، ہم تو چاہ رہے تھے کہ سرکلر ریلوے کے بعد کراچی ٹرام بھی چلائیں، کسی زمانے میں کراچی میں ٹرام چلا کرتی تھی، سرکلرریلوے کو سی پیک میں کیوں ڈال دیا۔ اسد عمر نے کہا کہ معاشی صورتحال کی وجہ سے کراچی سرکلر کو سی پیک میں ڈال دیا۔عدالت عظمیٰ نے 1 ماہ میں کراچی سرکلرریلوے پرآپریشنل سر گرمیاں شروع کرنے اور 3 ماہ میں سرکلر ریلوے کو مکمل فعال کرنے کا حکم دیا۔ اسد عمر نے کہا کہ اتنی جلدی ایسا نہیں ہو پائے گا، انفرااسٹرکچر بنانے میں وقت لگے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو پھر نہ کرنے والی بات ہے، چیزوں کو طول نہ دیں، کراچی سرکلر ریلوے کی اراضی محفوظ بنانے کا حل یہی ہے کہ فوری انفرااسٹرکچر بچھا دیا جائے۔ اسد عمر نے کہا کہ سندھ حکومت کو احکامات دے دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت ڈیلیور نہیں کرے گی۔عدالت نے ایم ایل ون منصوبہ 2سال میں فعال بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ دی گئی مدت پر عمل نہ ہونے کے نتائج خطرناک ہوںگے، عدالت کی ٹائم لائن ریلوے کے لیے چیلنج ہے، اگر عملی طور پر ممکن نہیں تو ریلوے بند کر دیں، کیس کی آئندہ سماعت 21 فروری کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔علاوہ ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سندھ ریزروپولیس میں غیرقانونی بھرتیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے بھرتیوں سے متعلق سندھ حکومت کی رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار کیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے کہنے پرسب نے آنکھیں بند کرلیں ایک دوسرے کے گناہوں پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جس نے بھرتیاں کیں اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا ،جن کے تقرر ہوئے انہیں فارغ کردیا پھرجن کو نکالا ان کو واپس رکھ لیا،تقرریوں کے لیٹرفروخت کیے گئے تمام 18 ہزاربھرتیاں غیرقانونی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 2 افراد میں 9 ہزارکا کوٹہ تقسیم کیا گیا اب 20 ہزارمزید بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے نئی بھرتیاں قانون کے مطابق ہونے کی یقین دہانی کروائی تو بینچ نے کہا کہ نئی بھرتیوں کودیکھیں گے قانون کے مطابق ہوتی ہیں یا نہیں۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کوذاتی طورپر معاملے کودیکھ کررپورٹ طلب کرتے ہوئے ایس پی غلام نبی کیریوسے متعلق 2ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے معاملے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔