بینظیر انکم سے جیالوں کی سپورٹ کا پروگرام

993

اختر بھوپالی
مملکت خداداد پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جمہوریت میں سیاست دانوں کی موجاں ہوتی ہیں تو آمریت میں عوام سُکھ کا سانس لیتے ہیں۔ دوسرا بڑا فرق قومی خزانے پر پڑتا ہے، آمریت میں کھانے والے افراد کم ہوتے ہیں جب کہ جمہوریت میں کھانے والے افراد کی بھرمار ہوتی ہے۔ اب دیکھیے دور کوئی سا بھی ہو حکومت تو بیوروکریٹ ہی کی مرہون منت ہے، جس میں ایک سیکرٹری ہوتا ہے دوسرا اس کا ڈپٹی اور پھر ایڈیشنل سیکرٹری اور ماتحت عملہ۔ کام انہیں ہی کرنا ہے جس کے لیے ایک وزیر ہی کافی تھا کہ صرف اپنا کمیشن لینا اور دستخط کرنا ہوتا ہے مگر جمہوری دور میں ایک وزیر ہوتا ہے پھر ایک وزیر مملکت ہوتا ہے۔ اس کا ایک مشیر اور اس کا دم چھلا یعنی معاونِ خصوصی۔ اتنی بڑی جمہوری فوج کا مقصد صرف نوازنا ہوتا ہے، اس وقت ہمارے وزیراعظم نے 15 معاونین پال رکھے ہیں جس کی جواب طلبی کے لیے عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ سندھ میں عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ہوتے ہوئے دور غلامی کی علامت کمشنری نظام کو متبادل کے طور پر چلایا جارہا ہے جہاں مختلف افراد کوکمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی آسامیوں پر کھپادیا گیا ہے۔ الغرض جمہوریت میں کھانے پینے کے زیادہ موقعے ہوتے ہیں۔ مرکزی رہنمائوں کو وزارت، مشیران اور معاونِ خصوصی کی جگہ بھرتی کرلیا جاتا ہے۔ کچھ بڑے کارکنوں کو سرکاری محکموں میں مسند پر بٹھادیا جاتا ہے۔ رہ جاتے ہیں بے چارے کارکنان تو ان کو خوش کرنے کے لیے بھی پروگرام تب کیے جاتے ہیں تا کہ جب تک اقتدار ہے وہ اسی لالچ ہی میں پارٹی سے چمٹے رہیں۔ عوام اگر جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہیںتو اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت نہیں بلکہ وہ کارہائے نمایاں تھے جو انہوں نے عوام کے لیے سرانجام دیے، اس لیے قائد اعظم، قائد ملت کے بعد ان کو قائد عوام کے خطاب سے نوازا گیا۔ مگر اب یہ نعرہ تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے کہ بعد کے آنے والے لوگوں نے صرف اس نعرے کو کیش کیا۔ گرچہ اب اس نعرے کی گونج صرف سندھ کی حدود میں قید ہو کر رہ گئی ہے مگر سندھ پھر بھی پیچھے ہوتا جارہا ہے، اس کے لیے ایک اینکر نے کہا ہے
کہ سندھ کو اگر پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہو تو جئے بھٹو کو اب دفن کردو کہ یہ نعرہ خود بھٹو کے لیے باعث ندامت بن گیا ہے۔ اب تو کرپشن بھی جئے بھٹو کے نعرے پر ہورہی ہے، اس کے ساتھ ہی زندہ ہے بی بی زندہ ہے کا بھی کریا کرم ہوجانا چاہیے کہ زرداری صاحب نے بی بی کے نام کو اپنی ذہانت سے جلابخشی ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی نے ’’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کا اجرا کیا جس کا بظاہر مقصد غریب اور نادار بیوائوں کو مالی امداد فراہم کرنا تھا جس کی مقدار سہ ماہی تین ہزار روپے مقرر کی گئی تھی یعنی ایک ہزار روپے ماہوار۔ اس قلیل رقم سے کسی بیواہ کی کیا دادرسی ہوتی جیالوں کو جیب خرچ دے دیا گیا۔ گرچہ اب یہ رقم 5500 روپے بھی 1800 روپے ماہوار ہوگئی ہے مگر اس مہنگائی کے دور میں 1800 روپے کیا وقعت یہ تو کوئی چیف جسٹس صاحبان سے پوچھے جن کی صرف پنشن مراعات کے علاوہ 8 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اس لیے ہر جسٹس کو ریٹائر ہونے سے قبل ہی چیف جسٹس بنادیا جاتا ہے۔تا کہ مراعات کا تو حقدار ہو۔
پھر حالات نے پلٹا کھایا اور وقت نے ہماری بات درست ثابت کردی۔ جب یہ انکشاف ہوا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8 لاکھ 20 ہزار غیر مستحق افراد کو خارج کردیا گیا جس میں ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین تھے مزید یہ کہ گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کے 2543 افسران بھی اس بہتی گنگا سے اشنان کرتے رہے جس میں اول نمبر جیالوں کے دیس جئے سندھ کا ہے جن کے 1122 افسران اپنے اہل خانہ یا رشتے داروں کے نام پر یہ وظیفہ وصول کرتے رہے، دوسرے نمبر پر پہاڑی سرداروں کے صوبے بلوچستان کا ہے جس کے 741 افسران پکڑ میں آگئے، تیسرا نمبر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا ہے جس کے صرف 137 افسران یا ان کی بیویوں نے رقم وصول کیں اتنے بڑے صوبے میں اتنی قلیل مقدار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں جیالے کمیاب ہیں جو پنجاب میں پی پی کی مسلسل شکست کا باعث ہے۔ ہمارے نئے صوبے گلگت بلتستان کے 42 اور پاکستانی کشمیر کے 22 افسران کے علاوہ پاکستان ریلوے کا ایک اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 6 افسران بھی مستفیض ہوتے رہے مگر حیرت ہوئی کہ اس رپورٹ میں وزیراعظم کے اپنے صوبے کی کوئی خبر نہیں۔ اب یہ کام دانستہ ہے یا غیر دانستہ مگر سیانوں نے 2543 میں دیے گئے اعداد و شمار کو منقسم کیا تو جواب 413 آیا یعنی تیسری پوزیشن بنی۔ پیپلز پارٹی کے کسی مرکزی رہنما نے تو اس رپورٹ پر کوئی خدشات ظاہر نہیں کیے جب کہ پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما سعید غنی نے 8 لاکھ افراد کے نام نکالے جانے کے فیصلے کو درست قرار نہیں دیا۔ اس کا سادہ سا حل ہے کہ اگر سعید غنی صاحب ان 8 لاکھ افراد کی وضاحت کردیں تو نکالے گئے تمام نام دوبارہ سے فہرست میں ڈال دیے جائیں مگر شاید ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا تو چلیے 2543 افسران کی طرف سے وضاحت کریں اور اگر وہ ایسا بھی نہ کرسکیں تو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کریں کہ اس طرح یہ محترمہ کی بدنامی کا باعث بن گیا ہے۔ اگر پھر بھی سندھی جیالے بینظیر کے نام پر اسرار کریں تو مرکز کو چاہیے کہ یہ پروگرام سندھ حکومت کے حوالے کردے کہ وہ اپنے خرچ پر 8 لاکھ کے بجائے 18 لاکھ افراد کو یہ وظیفہ دیں۔ آخر وہ بینظیر بھٹو کی برسی پر بھی تو صرف سندھ میں عام تعطیل کرتے آرہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینظیر صرف سندھ کی لیڈر تھیں تو ان کے نام پر خیرات بھی سندھ کے خزانے سے دی جانی چاہیے۔ ویسے تو ہماری ناقص رائے میں اس سلسلے کو ختم کردینا چاہیے، کیوں کہ قوم کو بھیک منگا بنارہے ہیں بلکہ اس رقم کو یوٹیلیٹی اسٹور کی سبسڈی میں لگادینا چاہیے اور غریب اور نادار افراد کے لیے راشن کارڈ سے خریداری کی حد جو تین ہزار روپے سے بڑھا کر پانچ ہزار روپے مقرر کردینی چاہیے اس سے ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی اور گھر کا چولہا بھی جلتا رہے گا (اگر گیس آرہی ہوگی) یہاں ایک اور عرض یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹور پوش علاقوں میں نہ ہوں جیسے پچھلے دنوں وزیراعظم اسلام آباد کے ایک یوٹیلیٹی اسٹور پر ریلیف پیکیج کا افتتاح کرتے نظر آئے۔ اسلام آباد ملک کا دارالحکومت اور سب سے پوش علاقہ ہے وہاں یوٹیلیٹی اسٹور چہ معنی دار۔ ہمارا کام مشورہ دینا ہے بقیہ
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے پہلا نام سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی بیٹی اور موجودہ وزیر اطلاعات سندھ ڈاکٹر نفیسہ شاہ کا آیا ہے جو گزشتہ 7 سال سے وظیفہ وصول کررہی ہیں۔