ریلوے ٹریکس کی زبوں حالی

806

وفاقی حکومت نے گوادر کے بعد پشاور کو ریلوے کا حب قرار دیتے ہوئے پشاور سے افغانستان کے سرحدی شہر جلال آباد کے لیے ٹرین سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی فزیبلیٹی پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جلال آباد تک ریلوے لائن افغانستان کی خواہش پر بچھائی جائے گی۔ اس بات کا انکشاف وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے پشاور میں ایک میڈیا کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریلوے فلیٹ میں تین نئی ٹرینیں شامل کی جا رہی ہیں جو بہت جلد چلائی جائیں گی۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اضاخیل نوشہرہ میں تعمیر ہونے والی ڈرائی پورٹ سے منشیات کی روک تھام میں مدد ملے گی جب کہ جلال آباد کی مجوزہ نئی ٹرین لوئے شلمان کے راستے پر چلے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ رحمن بابا ٹرین کی کامیابی کے بعد خیبر پختون خوا کوعن قریب ایک اور نئی ٹرین دی جا رہی ہے جو مردان سے چلائی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ایک کروڑ سے زائد مسافروں نے ریل میں سفر کیا ہے۔ ریلوے میں اصلاحات کے تحت عوام کو سہولتیں دی جا رہی ہیں وہ اب موبائل فون پر بھی ریل گاڑیوں کی نقل وحرکت دیکھ سکیں گے۔ شیخ رشید کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز نوشہرہ اضاخیل ڈرائی پورٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم ایل ون پاکستان میں ریلوے کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا باعث بنے گا اور ایم ایل ون کی تکمیل کے بعد کراچی سے پشاور تک کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے ہو سکے گا جس سے نہ صرف مسافر ٹرینوں بلکہ فریٹ ٹرینوں کی تیز ترآمد و رفت بھی ممکن ہوسکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریلوے عام آدمی کی سواری ہے جبکہ پاکستان میں برسراقتدار رہنے والی حکومتیں عام آدمی کے بجائے اشرافیہ کے لیے پالیسیاں بنا کر بااثر طبقے کو نوازتی رہی ہیں لیکن اب یہ نظام نہیں چلے گا۔
کیا یہاں اس تلخ حقیقت کو کوئی جھٹلا سکے گا کہ یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے اس خطے میں نہ صرف ریلوے کا بہترین نظام قائم کیا تھا بلکہ ہم ہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو پچھلے ستر سال کے دوران ریلوے کے نظام میں تو کوئی معمولی بہتری بھی نہیں
لا سکے الٹا ہم انگریز کی بچھائی ہوئی ریلوے ٹریکس کو اکھاڑ کرایسے کھا گئے کہ ہم نے اس پر ڈکار لینا بھی گوارہ نہیں کیا۔ یاد رہے کہ یہ کوئی اتنی پرانی بات نہیں ہے جب کوئٹہ سے براستہ کچلاک اور شیلا باغ سرحدی شہر چمن تک ریل گاڑی چلتی تھی بلکہ بعض قارئین کو یاد ہوگا کہ ہمارے پانچ روپے کے ایک کرنسی نوٹ پر اسی ٹریک پر واقع شیلا باغ ٹنل کی ایک تصویر چھپی ہوتی تھی جو پانچ روپے کا نوٹ ختم ہونے کے ساتھ ہی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اس ٹنل (جو شاید تین کلومیٹر سے بھی زائد طویل تھی اور جسے پاکستان کی طویل ترین ریلوے ٹنل ہونے کا اعزاز حاصل تھا) کے دہانے کے اردگرد انگور کی گھنی بیلیں لٹکی ہوتیں تھیں جنہیں پانچ روپے کے متذکرہ نوٹ کی شبیہ میں بھی باآسانی دیکھا جاسکتا تھا۔ چونکہ یہ منظر راقم تیس سال قبل اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے شاید اس لیے یہ ٹنل اور اس کا نقشہ اب تک حافظے میں محفوظ ہے۔ اسی طرح کوئٹہ سے براستہ نوشکی دالبندین ایران کی سرحد پر واقع پاکستان کے آخری شہر تفتان تک انگریز وںکی بچھائی ہوئی ریلوے لائین کافی عرصہ تک آر سی ڈی معاہدے کے تحت پاکستان اور ایران کے درمیان مال برداری کے ساتھ ساتھ مسافروں کی آمد ورفت کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہے جو اب گردش ایام کی وجہ سے نا کارہ پڑی ہے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں کسی زمانے میں جنوبی اضلاع کوہاٹ، بنوں، ہنگو حتیٰ کہ ٹل تک ریلوے ٹریک موجود تھی لیکن اب اس ٹریک کا نام ونشان تک موجود نہیں ہے۔ راقم کو پچھلے دنوں ایک دوست کی شادی میں شرکت کے لیے ہنگو جانا ہوا تو راستے میں اس نایاب ریلوے ٹریک کے نشانات جگہ جگہ سے غائب پاکر نہ صرف بہت افسوس ہوا بلکہ ریلوے حکام اور خاص کر ہمارے منتخب ارکان پارلیمنٹ کی بے حسی اور ان کی غود غرضی پر رونا بھی آیا جن کی نگاہوں کے سامنے اس قیمتی قومی سرمائے کا نہ صرف ضیاع ہورہا ہے بلکہ اسے دن دیہاڑے لوٹا جارہا ہے جس پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
خیبر پختون خوا کی ایک اور اہم ریلوے ٹریک نوشہرہ مردان درگئی اور چارسدہ کے درمیان بھی موجود تھی لیکن یہ ٹریک بھی پچھلی کئی دہائیوں سے عملاً نہ صرف بند پڑی ہے بلکہ اس کے آثار بھی اب صرف کتابوں اور کاغذات ہی میں دستیاب ہیں۔ ہمیں یہ گزارشات جہاں ان متروک ریلوے ٹریکس کی حفاظت اور بحالی کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو توجہ دلانے کے تناظر میں قلم بند کرنا پڑی ہیں وہاں یہ داستان خونچکاں بیان کرنے کا دوسرا مقصد پچھلے کئی سال بالخصوص جب سے ہمارے ہاں سی پیک کا غلغلہ بلند ہوا ہے تب سے کبھی ہمیں پشاور ڈی آئی خان کوئٹہ ریلوے لائین بچھانے کے سندیسے سنائے جاتے ہیں اور کبھی پشاور طور خم جلال آباد ریلوے ٹریک کی خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں اور کبھی پشاور چارسدہ مردان صوابی نوشہرہ سرکلر ٹرین کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں لیکن ا س جانب اب تک ایک انچ بھی کوئی قدم اٹھتا ہوا نظر نہیں آتا جس کے نتیجے میں جہاں وزیر ریلوے اور وزیر اعظم کے ان حالیہ متذکرہ خوشنما اعلانات پر یقین کی کوئی تک نہیں بنتی وہاں حکمرانوں کی اس بے حسی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے اجتماعی تعمیر وترقی کے وہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے جن کی آس وہ عرصہ دراز سے آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔