معیشت کا استحکام اور بدحال عوام

363

 

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

آج کل حکومت کی پوری معاشی ٹیم اور وزیراعظم عمران خان خود عوام کو یہ یقین دلانے کی پوری کوشش کررہے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات بہتر ہورہے ہیں، معیشت میں استحکام آگیا ہے، اسٹاک مارکیٹ کی ٹریڈنگ میں تیزی آگئی ہے، انڈیکس پوائنٹس میں اضافہ ہورہا ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ ختم ہوگیا ہے، تجارتی خسارے میں بھی 34 فی صد کمی آئی ہے، انٹرنیشنل کریڈیٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کے معاشی آئوٹ لک(out look) کو مستحکم قرار دیا ہے، جب کہ درجہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے، بلوم برگ نے پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو بہترین قرار دیا ہے، ڈالر کے ساتھ پاکستانی روپے کی قدر کئی ماہ سے مستحکم ہے بلکہ بہتر ہورہی ہے، معیشت کا یہ ایک منظرنامہ ہے جو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ جب کہ دوسرا منظرنامہ وہ ہے جس کا عوام سے براہ راست تعلق ہے وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ روٹی جو 10 روپے کی تھی 12 روپے کی ہوگئی ہے، دودھ جو 90 روپے لٹر تھا وہ اب 110 روپے لٹر فروخت ہورہا ہے، سرکاری اسپتالوں میں جو تھوڑی بہت دوائیں غریب مریضوں کو مل جاتی ہیں وہ بھی اب نہیں ملتیں، تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کے لیے جو امداد سرکاری اداروں سے مل جاتی تھی اس کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے، سرکاری تعلیمی اداروں میں جو فیس پہلے 15 ہزار روپے تھی وہ اب 25 ہزار ہوگئی ہے، جس گھر میں پہلے 2 افراد برسرِ روزگار تھے اب اُن میں سے ایک بے روزگار ہوگیا ہے۔ اس معاملے میں وہ لوگ بہت بُری طرح متاثر ہوئے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر کہیں نہ کہیں مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔ مہنگائی کے معاملے میں حکومت ابھی تک صرف اس کی وجوہات بتارہی ہے کہ موسم کی خرابی، بھارت سے تجارتی بندش، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے باعث قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن اس کے حل کے لیے عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آرہے، جب کہ اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف یہی خبر دے رہے ہیں کہ مہنگائی میں کمی کا خدشہ نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
حکومت کو زرعی، صنعتی اور تجارتی محاذ پر بہت تیزی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً رواں سال کپاس کی فصل بہت خراب ہوئی اور سالانہ ہدف سے 30 سے 40 فی صد پیداوار میں کمی کا امکان ہے، کسان جو ویسے ہی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوتا ہے یہ سال اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا۔ کپاس کی فصل خراب ہونے کی وجوہات میں موسم کے علاوہ غیر معیاری بیج اور خراب کھاد اور غیر موثر کیڑے مار دوائیں بھی شامل ہیں۔ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور آئندہ کے لیے اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے ان کی اسٹوریج، ٹرانسپورٹیشن اور مارکیٹ میں فروخت کا مربوط نظام ہونا چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ کبھی فصل اچھی ہوگئی تو سبزیاں کوڑیوں کے دام ہر گلی کے کونے پر فروخت ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور اس سے کسان کو نقصان ہوتا ہے اور کبھی اگر فصل خراب ہوئی تو قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کو زیادہ عرصے تک اسٹور نہیں کیا جاسکتا۔ چناں چہ اِن کی طلب و رسد میں توازن کے لیے حکومت کو اقدامات کرنا چاہئیں۔ زراعت کے بعد دوسرا شعبہ صنعت کاری ہے جس کے لیے حکومت درخواست کررہی ہے کہ نجی شعبے آگے آئیں، نجی شعبے کا اصل ہدف منافع کا حصول ہوتا ہے، چاہے ٹھیلے پر بریانی فروخت کرنے والا ہو یا کوئی گارمنٹ فیکٹری ہو، منافع کے تخمینے میں اہم عنصر پیداواری لاگت ہے، حکومت نے کاروبار شروع کرنے کے عمل میں یقینا کچھ آسانیاں پیدا کردی ہیں مثلاً پیداواری لاگت میں اتنا اضافہ کردیا ہے کہ چلتے ہوئے کاروبار کو برقرر رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ اس صورتِ حال میں ملازمتیں کیسے پیدا ہوں گی اور بے روزگاری میں کمی کیسے آئے گی، اب تو حکومت کو ہر طرف سے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر کے طعنے مل رہے ہیں۔ جب تک عوام کو اس سلسلے میں ریلیف نہیں ملے گا یہ طعنے ملتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں صنعت اور تعمیراتی شعبے میں تیزی لانا ضروری ہے اور یہ کام بیانات، پریس کانفرنسوں اور وعدوں سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مربوط منصوبہ بندی ضروری ہے ورنہ تیز و تند الزامات، کڑی تنقید اور غصیلے طعنوں کی شدت میں اضافہ ہوتا رہے گا اور حکومت کو جان بچانا مشکل ہوجائے گا۔