صوبے کے مفادات مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں، امتیاز شیخ

555

ہمیں مرکزی حکومت کے متبادل توانائی سے متعلق پالیسی پر خدشات ہیں۔ رن آف ریور پر پانی کے منصوبوں پر بھی اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے۔

کراچی :سندھ  کے وزیر توانائی امتیاز شیخ کا کہنا ہے کہ وزارت توانائی سندھ نے اپنی سفارشات بھجوائی تھیں لیکن وفاقی حکومت نے صوبوں کے خدشات کو شامل نہیں کیا ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں انرجی پالیسی پرتحفظات ہیں اور یہ اٹھارویں ترمیم سے بھی متصادم ہے,سندھ متبادل توانائی پالیسی کو رد کرتا ہےاور  اس پالیسی پر سندھ اور بلوچستان مل کر وفاق سے اپنے تحفظات کا اظہار کریں گے ۔

جمعرات کے روز  پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی میں صوبے کے جاری کردہ کمپنیوں کو نکالنے کی بات  ہورہی ہے۔ ایل او آئی جاری ہوتا ہے اس میں صوبے کا عمل دخل ہونا چاہیے ۔ بڈنگ کے عمل میں بھی صوبے کو شامل کیا جائے ۔متبادل انرجی کے لئے زمین صوبہ دیتا ہے۔ سندھ میں تیل و گیس کی کئی کمپنیاں کام کر رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرک انسپکٹر کی کاردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ الیکٹرک انسپکٹر ز کی تنظیم نو کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوگرا میں صوبوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی، وہاں چند افسران بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں ۔ مقامی لوگوں کو ملازمت کے حوالے سے بھی صوبوں کو کوئی اختیار نہیں۔ سندھ سے تیل 40 فیصد اورگیس 68فیصد نکلتی ہے تاہم صوبے سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی ہے،متبادل توانائی پالیسی کو تضاد سے بچانا ہوگا۔سندھ میں قریباً پچیس فیصد آف گرڈ علاقے ہیں، عالمی بینک کے تعاون سے سولر انرجی پروگرام لا رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ 2 لاکھ گھروں میں سولرپاورپلانٹ لگانے کے لیے منصوبا بنایا ہے،بلند عمارات کی چھتوں پرانرجی منصوبے لگانے کے ساتھ سندھ کے اسپتالوں کو سولر پر منتقل کریں گے۔

وزیر توانائی نے کہا کہ سندھ نے اپنی گرڈ کمپنی کا لائسنس حاصل کر لیا ہے ، سندھ ٹرانسمیشن لائین خود لگائے گا۔ نوریا آباد کا بجلی گھر کامیاب اور منافع بخش ہیں منصوبے سے قرض اتارا جارہا ہے ۔سندھ میں تھر 660 میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے ، مستقبل میں تھر سے 4 ہزار بجلی کی پیداوار ہوگی۔ کے تھری کی بجلی کے لیے صوبائی انرجی ڈیپارٹمنٹ کام کررہا ہے  ۔ کراچی میں جنریشن اورڈسٹری بیوشن کی ایک ہی کمپنی ہے، اگر کوئی اورآنا چاہے تو وہ رابطہ کرے،آگے چل کردیکھیں گے کہ سندھ حکومت کیا کرسکتی ہے۔