کیا انصاف صرف امیروں کی میراث ہے ؟؟

899

نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلے کی امتیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے یہاں امیر کے لیے قانون الگ اور غریب کے لیے الگ تھا خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ نبی مہربانؐ کی اس حدیث اور سنت نے انصاف کے وہ دریچے کھول دیے ہیں کہ اگر صرف اسی حدیث اور سنت کو بنیاد بنا کر ملک میں نظام انصاف کو نافذ کر دیا جائے تو اس ملک کو کسی قسم کے اندرونی بیرونی خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اللہ کی تائید و نصرت اور برکت آسمان سے برسنے لگے گی۔ ماضی قریب میں جب جنگ عظیم دوم عروج پر تھی اور مغربی اتحادیوں نے برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی تھی لندن جل رہا تھا ایسے میں چند دانشور اور سیاسی وفوجی افسران اس وقت کے وزیر اعظم برطانیہ چرچل کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ کچھ کیجیے لندن جل رہا ہے ہم تو حیران ہیں کہ آپ کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی کے آثار نہیں ہیں اور آپ اپنی سگار پوری طمانیت سے پی رہے ہیں۔ چرچل نے پوچھا یہ بتائے کیا برطانیہ میں انصاف پوری طرح مل رہا ہے اس سوال پر سب چونک گئے اور کہا جناب اس جنگ کا انصاف سے کیا تعلق لندن جل رہا ہے اور آپ انصاف کی بات کر رہے ہیں چرچل نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے پھر پوچھا کیا آپ کے یہاں انصاف مل رہا ہے زچ ہو کر سب نے یک زبان ہوکر کہا ہاں مل رہا ہے۔ اس پر چرچل نے کہا جائیں پھر کچھ نہیں ہوگا۔ سب پحیران رہ گئے بادل ناخواستہ وہاں سے رخصت ہو گئے۔
نبی کریمؐ کی حدیث اور آپؐ کی سنت اور ماضی قریب کی مثال دینے کا مقصد یہی تھا کہ ہمارے ملک میں انصاف کی عدم فراہمی اور جرائم کی قرار واقعی سزائوں کا نہ ملنا ہی دراصل ہر ترقی میں بنیادی رکاوٹ ہے۔ انصاف ایک ہمہ جہتی لفظ ہے جو پورے معاشرے پر محیط ہے جس کا دائرہ معیشت، صحت، تعلیم، نظام عدل، معاشرت، بنیادی حقوق، امن و امان الغرض کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل نہ ہو۔ قرآن کریم نے بھی لوگوں کے درمیان انصاف کی فراہمی پر بہت زور دیا ہے اور بعض جرائم کی سزائیں بھی مقرر کر دی ہیں اور پھر یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ سزا دینے میں ذرا تاخیر نہ کی جائے اور نہ مجرم پر کسی قسم کی رعایت دی جائے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی انصاف کی عدم فراہمی ہے یہ صرف عدالتوں میں چلنے والے مقدمات تک ہی محدود نہیں بلکہ تعلیم، صحت، کاروبار، روزگار سب جگہ انصاف ہی درکار ہوتا ہے۔ صحت کا شعبہ سب سے زیادہ عدم انصاف کا شکار ہے جہاں سرکاری اسپتالوں میں انسانوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو دور حاضر کے جدید ممالک میں جانوروں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھا جاتا۔ نہ ڈاکٹر خدمت خلق کے جذبے سے سرشار، نہ عملہ غریب مسکین غریب بیمار کے ساتھ حسن سلوک پر تیار، نہ اسپتالوں میں ادویات کی دستیابی، نہ میڈیکل ٹیسٹ کی مشینوں کی فراہمی الغرض مریض اسپتال آکر جس بدترین رویے کا سامنا کرتا ہے اس کے بعد وہ مرجانے ہی کی دعا کرتا ہے۔ یہی حال عدالتوں کا ہے تاریخ پر تاریخ دے دے کر سائل کو قبرستان پہنچا دیا جاتا مگر انصاف اس کی دہلیز تو کیا اس کی نسلوں تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔
میاں محمد نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم ہیں جو دوران سزا 2 مرتبہ جیل سے باہر آ چکے ہیں اور
دونوں مرتبہ بیماری ہی ان کی ضمانت پر رہائی کی بنیاد بنی۔ پہلی بار جب نواز شریف کو 6 ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہائی ملی تو انہوں نے علاج کرانے کے بجائے خاندانی اور پارٹی کے امور نمٹانے میں لگا دیے اور علاج کا کہیں دور دور تک پتا نہ تھا اور 6 ہفتے گزار کر پھر وہ راہی زندان ہوئے اب پھر ان کو 8 ہفتوں کی رہائی ملی ہے جس میں ایک ماہ بیرون ملک علاج کرانے کی سہولت بھی شامل ہے جس میں مکمل صحت یابی کی غیر معمولی سہولت بھی دی گئی ہے کہ جب ڈاکٹر کہیں گے وہ پاکستان آ سکتے ہیں اگر ڈاکٹر پانچ سال تک یا کم از کم نیازی حکومت کے خاتمے تک صحت مندی کی سند نہیں دیتے میاں صاحب لندن امریکا اور جہاں چاہیں آزاد پنچھی کی طرح پوری دنیا کا سفر کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے اپنے پاگل پن کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لے اور لوگوں کو دھمکاتا رہے کہ میری جیب میں پاگل پن کا سرٹیفکیٹ ہے اس لیے مجھ سے نہ الجھو۔ یہ کون سا عدالتی نظام ہے جس میں ایک بااثر شخص کو چھوڑنے کے لیے چھٹی کے دن پوری عدالتی مشنری حکومتی مشنری سیکورٹی کے ادارے سب کو مصروف رکھا گیا، کیا کسی کمزور کو اسی طرح کے غیر معمولی اقدام سے انصاف فراہم کرنے کی کوئی ایک نظیر عدالتی رکارڈ پر درج نہیں کی جا سکتی جس میں کسی غریب بڑھیا کا مکان ظالم کرائے دار سے چھڑوا کر اس کے حوالے کردیا جائے۔ مزدور اپنے حقوق کی جنگ ستر سال سے لڑ رہے ہیں، یونیورسٹی اور کالجوں کے طلبہ اپنے سیاسی حقوق کے لیے طلبہ تنظیموں کی بحالی کے لیے انصاف کے منتظر ہیں بھٹا مزدور بیگار کیمپ میں کام کرنے پر مجبور ہیں مزارع نسل در نسل زمیندار کے غلام بنے ہوئے ہیں اور جن کے پاس کچھ زمین ہے وہ زمیندار باردانہ اور سرکاری سطح پر اپنا غلہ مناسب داموں پر نہیں بیچ سکتے، کھاد دستیاب نہیں، سرکار نے کوئی بندوبست نہیں کیا کہ ان کو جدید مشینیں آسان اقساط پر فراہم کرے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ غلہ پیدا کرکے اپنی آمدنی بڑھانے کے ساتھ قوم کی بھی خدمت کر سکیں۔ لیکن دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ایک بااثر خاندان کی چشم و چراغ کو باپ کی تیمارداری کے لیے جیل سے ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے اب جبکہ وہ باہر نہیں جا سکتیں اور والد محترم سات سمندر پار علاج کے لیے سدھارنے والے ہیں تو ان کی ضمانت کی بنیاد تو ختم ہو گئی پھر وہ کس کھاتے میں ضمانت پر باہر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ کھیل کب تک جاری رہے گا قوم کو انگریز سے چھٹکارا حاصل کیے 72 سال گزر چکے مگر آج بھی متعدد قوانین انگریز ہی کے بنائے ہوئے ہیں جو غلاموں کو قابو کرنے کی ذہنیت سے بنائے گئے تھے۔ متعدد حکومتیں انتخابات کے نتیجے میں قائم ہو چکی ہیں اور جو طالع آزما ہیں وہ بھی اسی ملک کا حصہ ہیں وہ بھی قوانین کو تبدیل کرنے کا قوی اختیار رکھتے تھے مگر کس کا اشارہ ہے کہ انگریز کے قوانین تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ عمران نیازی نے دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا تھا جو بس نعرہ ہی نکلا بلکہ اب تو ایک کے بجائے تین تین چار چار پاکستان بن چکے ہیں۔
سیدنا عمرؓ کے دور خلافت میں زلزلہ آیا تو انہوں نے زمین پر اپنا عصا مارا اور فرمایا اے زمین ٹھیر جا کیا عمر تیرے اوپر انصاف نہیں کرتا زمین اسی وقت ساکت ہوگئی۔ انصاف ہر ہر شعبے میں درکار ہے اس کے بغیر پاکستان ترقی تو درکنار اقوام عالم میں کہیں جگہ بھی بنانے کے قابل نہیں ہو سکتا انصاف کی عدم فراہمی اور ملکی حالات دوسروں سے ڈھکے چھپے نہیں اسی لیے مسلم یا غیر مسلم ممالک عالمی سطح پر ہماری حمایت سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔