کرتارپور سے… مقبوضہ کشمیر تک

276

محمد اکرم خالد
بھارتی عدالت عظمیٰ نے تاریخی بابری مسجد کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا کام جلد شروع کیا جائے بھارتی عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں سنایا جب پاکستان میں سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے کرتارپور راہداری کا افتتاح کیا جارہا تھا ایک جانب پاکستان انسانیت اور مذاہب کا احترام کر کے دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اسلام محبت انسانیت امن کا درس دیتا ہے تو دوسری جانب بھارت انسانیت اور مذاہب کا سر عام قتل کر کے نفرتوں کو جنم دے رہا ہے۔ بابری مسجد کا فیصلہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی فیصلہ ہے جس میں واضح تضاد نظر آتا ہے خود بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ اے ایس آئی رپورٹ اس انتہائی اہم بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی ان کا کہنا تھا کہ مسلمان بابری مسجد کے اندورنی مقام پر عبادت کرتے تھے جبکہ ہندو مسجد کے باہر کے مقام پر عبادت کرتے تھے۔ بھاتی چیف جسٹس کی اس بات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بابری مسجد کی زمین پر اصل حق مسلمانوں کا تھا جو مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی بابری مسجد میں برسوں سے عبادت کر رہے تھے تاریخی حقیقت کے سچ کو جان کر بھی بھارتی عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ صرف مسلمانوں سے نفرت کا اظہار ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے سکھوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی قدیم عبادت گاہ بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن پر سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور راہداری کھول دی۔ کرتارپور راہداری کو ایک سال کی کم ترین مدت میں مکمل کیا گیا ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہیں جس کا کریڈٹ ریاست مدینہ کی دعویدار تحریک انصاف کی قیادت کو جاتا ہے یقینا دین اسلام دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام درس دیتا ہے۔
مگرکیا یہ مناسب ہے کہ میرے ملک میں مساجد غیر محفوظ خستہ حالی کا شکار ہوں ہمارے دینی مدارس خستہ حالی اور بہتر نظام سے محروم ہوں ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالت پر صرف افسوس کیا جائے اس ملک کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سیاست کی جائے اور اس کا بجٹ کرتارپور راہداری پر خرچ کر دیا جائے بجلی کے ناقص نظام سے میرے ملک کے معصوم لوگوں کی زندگیاں ختم ہوجائیں مگر کر تارپور میں بہترین بجلی کا نظام چلتا رہے میں اپنے ہی ملک میں بغیر شناختی کارڈ کے سفر سے محروم کر دیا جائوں مگر بھارت سے کرتارپور آنے والے افراد بغیر پاسپورٹ کے میری ملک کی سر زمین میں داخل ہوجائیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید تحریک انصاف کی قیادت بھارت میں بسنے والی سکھ برادری کو پاکستان میں آکر ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی دینے کا ارادہ رکھتی ہے انڈیا کا میڈیا مولانا کا آزادی مارچ دکھائے تو مولانا پر غداری کا الزام اور بھارتی میڈیا جب کرتارپور راہداری کا افتتاح دکھائے جس کو مودی بھارت کی فتح قرار دے تو اس کو کیا کہا جائے۔
خان صاحب کی سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ مولانا آزادی مارچ کا اعلان 27 اکتوبر کو کرتے ہیں تو اس کو کشمیر کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے کیا کپتان کو 9 نومبر کی تاریخ یاد ہے 9 نومبر وہ دن ہے جب بھارتی فوج نے ریاست جونا گڑھ پر قبضہ کر کے اسے بھارت میں شامل کر لیا تھا جبکہ جونا گڑھ پاکستان میں شمولیت کا پہلے ہی اعلان کر چکا تھا۔ ہمارے ارباب اختیار کے یہی وہ رویے ہیں جن سے آج ہم دنیا کی نظروں میں بے وقعت ہیں کیوں کہ ہم نے کبھی اپنے جائز مطالبات پر دبنگ انداز اپنانے کی جرات نہیں کی سو دن گزر گئے کشمیر کرفیو کی زد میں ہے خواتین بچے بزرگ بھوک پیاس علاج سے محروم ہیں اور وزیر اعظم پاکستان بھارتی سکھ برادری کے ساتھ کرتار پور کی فتح کا جشن منا کر کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ خان صاحب جب آپ پانچ سالہ اقتدار مولانا کو استعفے کی شکل میں پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کو تیار نہیں تو پھر آپ بھارتی انتہا پسند سرکار سے کیسے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ کشمیر آپ کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دے گا۔ جب آپ کے استعفے پر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ناکام ہوسکتے ہیں تو کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات سے کیسے حل ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ نرمی کا رویہ اپنایا ہے جس کی وجہ سے ہم آج بابری مسجد کو نہیں بچا سکے ہیں یہی نرمی آج ہم سے کشمیر کو دور کرتی جار ہی ہے ہمارے ہر مثبت انداز کا جواب ہمیں بھارت لاشوں کی شکل میں دیتا رہا ہے کرتارپور راہداری سے کسی پاکستانی کو اختلاف نہیں مگر ایسے وقت میں اس کا افتتاح کرنا جب کشمیر جل رہا ہے کشمیر لہولہان ہورہا ہے کشمیری مسلمان بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں خواتین بزرگ معصوم بچے نوجوان سب مودی کے ظلم کی چکی میںکچلے جارہے ہیں عالمی طاقتیں انسانی حقوق کی تنظیمیں اسلامی ممالک سب کے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ایسے میں ہمارے ارباب اختیار دنیا سے بھیگ میں وقت ضائع کر رہے ہیں ہم یہاں اعلان جنگ کرنے کا مشورہ نہیں دے رہے مگر ہم یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ خدارہ ارباب اختیار دنیا کی ہمدردی حاصل کرنے کے خول سے باہر نکل کر مثبت موثر فیصلے کرنے کی جرات دکھائیں اقوام متحدہ کی تقریر بے سود ہوتی جارہی ہے اور ہمارے حکمران غیر ضروری اقدامات میں مصروف ہیں اگر ہماری پالیسی کشمیر کے حوالے سے ایسی سست روی کا شکار رہی تو خدا نہ کرے ہم مشرق پاکستان کی طرح کشمیر کا ماتم بھی کرتے رہیں گے۔