انسان تو بچا لیے جائیں

759

میاں منیر احمد
کراچی میں رہائش تو نہیں‘ تاہم تعلق اس لیے ہے زندگی کے ابتدائی نو دس سال یہاں گزرے ہیں‘ تب بھی کراچی میں پانی کا مسئلہ تھا‘ آج بھی ہے، تب ائر پورٹ پر وزیٹر بلا روک ٹوک جاتے تھے اور ہم بھی ایک چبوترے پر بیٹھ کر جہازوں کی لینڈنگ اور انہیں ٹیک آف ہوتے ہوئے دیکھتے تھے‘ پچاس سال پہلے چینیوں کا ایک گروپ کراچی آیا تو خواہش ظاہر کی کاش بیجنگ بھی کراچی جیسا صاف ستھرا شہر بن جائے آج کراچی اور بیجنگ میں فرق کیا ہے؟ پانی‘ بجلی کے بحران پر اب کیا بات کی جائے‘ کراچی ایک بڑے کرب سے گزر رہا ہے کچرا اور گندگی ایک مسئلہ‘ یہاں تو آوارہ کتوں نے گلیوں‘ بازاروں‘ چوراہوں اور حتی کہ شاہراوں پر قبضہ کررکھا ہے شہر میں کتے کاٹے کی ویکسین موجود ہی نہیں ہے آوارہ کتوں نے دو اڑھائی کروڑ کی آبادی والے اس شہر کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے شہری حکومت‘ صوبائی حکومت اور صوبائی حکومت مرکزی حکومت کی جانب دیکھ رہی ہے‘ مرکز نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے‘ وزیر اعلیٰ نے جواب دیا کہ اب مرکز کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا پڑیں گے‘ صوبے کو این ایف سی ایوارڈ کے مطابق رقم نہیں دی جارہی‘ وزیر اعظم صوبے کے چیف ایگزیکٹو سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے۔
شہری‘ صوبائی اور مرکزی حکومت کی اس تکونی لڑائی میں‘ وہ لوگ کہاں جائیں جن کے پیارے کتوں کے کاٹے سے جان ہار چکے ہیں وہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟ آوارہ کتوں کی بھرمار کراچی کی طرح اسلام آباد میں بھی ہے‘ سی ڈی اے کے چیئرمین اور بلدیہ کے میئر آپس میں الجھ رہے ہیں‘ ایک کہتا ہے کہ وسائل نہیں‘ دوسرا کہتا ہے کہ اختیارات نہیں‘ مگر شہری کہاں جائیں؟ کچرا اسلام آباد میں بھی بہت ہے‘ جگہ جگہ گندگی‘ اور ڈینگی مچھر نے شہر کے بارہ ہزار سے زائد شہریوں کو نشانہ بنایا ہے‘ چھوٹے سے شہر میں بارہ ہزار ڈینگی مریض رجسٹرڈ ہوچکے ہیں‘ وزارت صحت‘ سی ڈی اے اور اسلام آباد بلدیہ تینوں کا رونا یہ ہے کہ وسائل نہیں ہیں‘ یہ وسائل گئے کہاں؟ اسلام آباد میں مرکزی کاروباری مارکیٹ بلیو ایریا سمیت کم و بیش ایک سو چوبیس چھوٹی بڑی مارکیٹس ہیں اور بیس رہائشی سیکٹرز ہیں اور کم و بیش ایک سو سے زائد چھوٹی بڑی سڑکیں‘ کوئی مارکیٹ‘ کوئی شاہراہ اور رہائشی سیکٹر آوارہ کتوں سے محفوظ نہیں ہے۔ متعدد بار‘ بلکہ درجنوں بار دیکھا گیا کہ شاہراہ دستور بھی آوارہ کتوں سے محفوظ نہیں رہی‘ درجنوں بار آوارہ کتے پارلیمنٹ ہائوس کی پارکنگ اور احاطے میں بھی دیکھے گئے ہیں‘ گویا ریڈ زون میں بھی‘ جہاں میٹرو بس کے سوا کوئی پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں جاسکتی‘ کتے کاٹے کی ویکسین تو اسلام آباد میں ناپید ہے۔
سی ڈی اے کا موقف ہے ہمارے پاس ڈرگ انسپیکٹرز نہیں ہیں‘ دوائی بھی نہیں ہے‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ کتے کو مارنا آسان ہے مرے ہوئے کتوں کو منتقل کرنا مشکل کام ہے لہٰذا کوئی انہیں مارنے کی زحمت نہیں کرتا‘ یہ کتے اب انسانوں کو کاٹ رہے ہیں‘ جن کی زندگی چلے جانے کی صورت میں صرف وارثوں کی جانب سے شناختی کارڈ دکھا کر قبرستان میں قبر کے لیے جگہ مل جاتی ہے‘ یعنی انتقال کرجانے والے انسانوں کی قبرستان منتقلی آسان ہے‘ کتے کے کاٹے کی ویکسین کی عدم دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے، جس کے سبب لوگ سسک سسک کر مر رہے ہیں انسانی جانوں کے بارے میں کون سوچے گا‘ کتوں اور جنگلی سوروں کی بڑھتی آبادی نے دارالحکومت کے رہائشیوں کو پریشان کردیا ہے جنہوں نے جانوروں کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم آفس سے ہدایت طلب کی ہے آوارہ کتوں اور جنگلی سوروں کے خلاف وزیر اعظم آفس کے پاکستان سٹیزن پورٹل میں 64 شکایات درج کی گئیں۔
جنگلی سوروں اور آوارہ کتوں کی بڑھتی آبادی کا سامنا ہے یہ جنگلی جانو رات کے وقت سڑک حادثات کا سبب بن رہے ہیں ایک دہائی قبل جنگلی سور اور آوارہ کتوں کا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت مقامی اور غیر ملکی ان کا شکار کرتے تھے جنگلی سوروں کو مارنا وائلڈ لائف ایکٹ کی خلاف ورزی ہے لہٰذا اس جانور کے شکار پر پابندی ہے۔ شہر میں ایک دہائی سے آوارہ کتوں اور جنگلی سوروں کی بڑھتی آبادی دیکھنے میں آرہی ہے اور آوارہ کتوں کی شوٹنگ پر این جی اوز تنقید کرتی ہیں‘ این جی اوز کی ترجیح انسان ہیں یا کتے‘ یہ ان سے پوچھ لینا چاہیے۔